جواب شکوہ بند 11

بند 11 (ص191)

مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ، تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

 

158:  قید، پریشان: کون سی صنعت ہیں؟

قید سے مراد کسی چیز کا بند ہونا یا جکڑا ہونا ہے جب کہ پریشاں سے مراد کسی چیز کا بکھرا ہونا لہذا، لہذا یہ متضاد الفاظ میں۔ شاعری میں متضاد الفاظ استعمال کرنا صنعت تضاد کہلاتا ہے اس لیے یہ صنعت تضاد ہے۔

159:  “بو، غنچہ، ہوائے چمنستاں” کون سی صنعت کی طرف اشارہ ہے؟

کسی ایک لفظ کی مناسبت سے اس جیسے الفاظ استعمال کرنا صنعت مراعات النظیر کہلاتا ہے اور یہاں بو کی نسبت سے غنچہ، پریشاں اور ہوائے چمنستاں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ صنعت مراعات النظیر ہے۔

160:  مسلمان کے مثل بو قید ہونے سے کیا مرد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح خوشبو غنچے میں بند ہوتی ہے مسلمان بھی اسی طرح غیر متحرک اور غیر فعال ہو چکے ہیں۔

161:  کون غنچے میں قید ہے؟

یہاں مسلمان کو تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بو کی طرح غنچے میں قید ہے۔

162:  یہاں تشبیہ کیسے استعمال ہوئی ہے؟

یہاں “مثل بو قید ہے غنچے میں” کی صورت میں تشبیہ استعمال ہوئی ہے جہاں مسلمان کو ایسی خوشبو سے تشبیہ دی گئی ہے جو ابھی تک گلستان میں پھیلی نہیں۔

163:  دوسرے مصرعے کا سادہ ترجمہ لکھیں

ہوا کے کندھوں پر سوار ہو کر باغ میں پھیل جا۔

164:  دوسرے مصرعے میں مسلمان کو کیا نصیحت کی جا رہی ہے؟

دوسرے مصرعے میں مسلمان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جس طرح خوشبنو ہوا  کے کندھوں پر سوار ہو کر پورے باغ میں پھیل جاتی ہے تم بھی اسی طرح متحرک ہو کر پوری دنیا میں پھیل جاؤ اور اپنے عمل و کردار اور محنت سے دنیا کو اپنی نئی پہچان کراؤ۔

166:  ذرے سے بیاباں ہونے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان کی حیثیت اس وقت ریت کے ایک چھوٹے سے ذرے کی ہے۔ اس کی کوئی عزت اور حیثیت نہیں اور دنیا کے بڑے بڑے فیصلوں میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ لہذا تمھیں پھر سے بیدار ہو کر اپنے آپ کو عالمی قوت کے طور پر سامنے لا کر دنیا کا انتظام پھر سے سنبھالنا چاہیے۔

167:  مسلمان کیسے تنک مایہ ہے؟

مسلمان تنگ مایہ اس طرح ہے کہ اِس وقت عالمی نظام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

168:  نغمۂ موج کی کیا خصوصیت ہے؟

نغمۂ موج سست انداز میں، اپنی دھن میں بہتی ہے اور کوئی بھی اس سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی وہ اتنا رعب رکھتی ہے۔

169:          مسلمان کو ہنگامہ طوفان ہونے کا کیوں کہا جا رہا ہے؟ / شاعر کیوں نغمۂ موج کو ہنگامہ طوفاں بنانا چاہتا ہے؟

شاعر مسلمانوں کو دنیا کی قوت بنانا چاہتا ہے کہ وہ نغمہ موج جیسی سستی چھوڑ کو طوفان بن جائیں جو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور کسی بھی رکاوٹ کی پروا نہیں کرتا۔

170:  قوت عشق سے کیا مراد ہے؟

قوت عشق سے مراد دل کی لگن، سچے جذبے اور مستقل مزاجی سے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کر نا اور اس کی راہ میں آنے والی ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا اور ہمت نہ ہارنا مراد ہے۔

171:  یہاں عشق سے کون سا عشق مراد ہے؟

یہاں عشق سے مراد عشق رسولﷺ ہے۔

172:  پست، بالا: صنعت کی وضاحت کریں

پست اور بالا متضاد الفاظ ہیں اس لیے اس مصرعے/ شعر میں صنعت تضاد استعمال ہوئی ہے۔

173:  قوت عشق کیسے پست کو بالا کر سکتی ہے؟

کوئی بھی فرد یا قوم سچے دل سے آپﷺ کے بتائے گئے اصولوں اور اخلاقیات پر عمل کرے گی تو وہ دنیاوی و اخلاقی لحاظ سے ترقی کرتے ہوئے سب سے بلند مرتبہ ہو جائے گی۔ اور اگر یہی کام امت مسلمہ کرے گی تو دنیا میں حاکم بننے کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوار لے گی۔

174:          دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کرنے سے کیا مراد ہے؟ / دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کیسے ہو گا؟

اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمان قوم کو آپﷺ کے بتائے گئے اصلوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے کردار سے اہلِ زمیں کے دلوں کو اس طرح مسخر کرنا چاہیے جیسے ابتدائی دور کے مسلمانوں نے کِیا اور لوگ ان کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہوتے گئے یوں دنیا بھر میں آپﷺ کا نام اور پہچان بن گئی۔

1 thought on “جواب شکوہ بند 11”

  1. Pingback: جواب شکوہ بند 12

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!