جواب شکوہ بند 4 (ص190)

جواب شکوہ بند 4 (ص190)

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے؟

عالم  کیف ہے، دانائے رموز کم ہے

ہاں، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

 

 46 :   انسان کس حد تک شوخ ہے؟

انسان اس حد تک شوخ ہے کہ اللہ سے بھی برہم ہے۔

  47:   اللہ سے کون برہم ہے؟

اللہ تعالی سے انسان برہم ہے۔

 48 :   مسجود ملائک قواعد کی رو(شعری اصطلاح) سے کیا ہے؟

مسجود ملائک قواعد کی رو سے صنعت تلمیح ہے جہاں انسان کو فرشتوں کے ذریعے سجدہ کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

  49:   آدم سے کون مراد ہے؟

یہاں آدم سے مراد حضرت آدم علیہ السلام بھی ہیں جنھیں فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ جب کہ مجاز مرسل کی قسم “جزو بول کر کل مراد لینا” استعمال کی گئی ہے یعنی ایک آدم علیہ السلام کا نام مراد لے کر تمام انسانوں کی بات کی گئی ہے۔

 50 :   “عالم کیف ہے” کی وضاحت کریں؟

عالم  کیف سے مراد کیفیتوں کا علم جاننے والا ہے۔  انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ کیفیات یعنی محبت، نفرت، غصہ، ڈپریشن وغیرہ علم نفسیات کے ذریعے جان سکتا ہے اور انسان کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری شخصیت کا خاکہ کھینچ سکتا ہے۔

 51 :   “دانائے رموز کم” سے کیا مرا دہےَ؟

اس سے مراد کمیتوں یعنی اشیا کی تعداد و کوالٹی کا علم رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے مراد موجود سائنسی ترقی بھی ہے۔

 52:   یہاں “شوخ” سے کیا مراد ہے؟

اس بند میں شوخ سے مراد گستاخ ہے۔

53 :   انسان کو کس چیز پر غرور /ناز ہے؟

انسان کو اپنے بات کرنے کے طریقے، الفاظ کے چناؤ اور  گفتگو میں جامعیت پر غرور ہے۔

54 :   عجز کے اسرار سے کون نامحرم ہے؟

انسان عجز کے اسرار سے نا محرم ہے۔

55 :   انسان کو بات کرنے کا سلیقہ کیسے نہیں؟ / انسان کو کس چیز کا سلیقہ نہیں؟

انسان کو بات کرنے کا سلیقہ اس طرح نہیں کہ وہ چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز بھول چکا ہے۔ خالق کائنات سے کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں، اور اگر بات کرنی ہے تو کس انداز میں کرنی ہے، انسان یہ سب بھول چکا ہے۔

 56 :   کس کا افسانہ غم انگیز ہے؟

علامہ اقبال نے جو نظم شکوہ لکھی اسے افسانہ کہہ کر غم انگیز قرار دیا گیا ہے۔

57 :   عجز کے اسرار کیا ہوتے ہیں؟

عجز کے اسرار سے مراد تمیز اور احترام سے اچھے الفاظ میں کسی سے گفتگو کرنا ہے۔

58 :   اس بند کے دوسرے مصرع کی وضاحت کریں

اس بند کے دوسرے مصرعے میں فرشتے اس حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا یہ وہی احسان فراموش آدم ہے جس کو اللہ تعالی نے اتنی عزت بخشی کہ فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آج یہی رب تعالی سے شکوہ کر رہا ہے۔

دوسرے معانی میں اس یہ مراد ہے کہ، یہ وہی آدم ہے جس نے جنت میں اللہ تعالی کے حکم کو بھلا کر اپنی مرضی کرتے ہوئے ممنوعہ پھل کھالیا تھا۔ اپنی غلطی سے سیکھنے کے بجائے آج پھر شکوہ کی صورت میں اپنی غلطی دہرا رہا ہے۔

2 thoughts on “جواب شکوہ بند 4 (ص190)”

  1. Pingback: جواب شکوہ بند 3

  2. Pingback: جواب شکوہ بند 5 (ص190)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!