خواجہ میر درد غزل SLO

غزل خواجہ میر دردؔ

قتلِ عاشق کسی معشوق سے دور نہ تھا

پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا

1:        صنعت: اشتقاق (عاشق، معشوق) ، تضاد

2:      کیا چیز معشوق کی دسترس میں تھی؟

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی عاشق کو قتل کرنا معشوق کی دسترس میں تھا، ساتھ ہی وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ اس کے باوجود محبوب اتنے ظالم نہیں ہوا کرتے تھے کہ عاشق کو قتل کر دیتے۔  تم پہلے انسان ہو جس نے  یہ کام کیا ہے۔

3:      معشوق کے عہد سے پہلے کیا دستور نہیں تھا؟

معشوق کے عہد یعنی  زمانے سے پہلے عاشق کو قتل کرنے کا کوئی دستور نہیں تھا، یہ شاعر کا معشوق ہے جو اس دستور پر عمل پیرا ہونے لگا ہے۔

4:      شاعر معشوق سے کیا شکوہ کر رہے ہیں؟

شاعر معشوق سے یہ شکوہ کر رہے  ہیں کہ کسی بھی معشوق کے لیے اپنے عاشق کو قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا اس کے باوجود وہ  قتل جیسے انتہائی قدم کو نہیں اٹھاتے تھے۔ مگر تم پہلے انسان ہو جو اس کام سے بھی دریغ نہیں کر رہے، تم سے پہلے ایسا کوئی دستور نہیں تھا۔

حوالہ کے اشعار:

؎           بدلاوفا کا دیں گے بڑی سادگی سے ہم                   تم ہم سے روٹھ جاؤ گے اور زندگی سے ہم

؎           ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا                        میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

؎           تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے                           ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

 

 

رات مجلس میں ترے حسن کے  شعلے کے حضور

شمع کے منہ پہ جو دیکھا، تو کہیں نور نہ تھا

صنعت مبالغہ

5:      محبوب کے سامنے شمع کی کیا حیثیت تھی؟

شاعر کے مطابق جب محبوب مجلس میں داخل  ہوا تو اس کا حُسن اتنا زیادہ تھا کہ شمع کی روشنی ماند پڑ گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے شمع جلنے کے باوجود بے نور ہو چکی ہو۔

6:      اس شعر میں صنعت مبالغہ کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

شاعر کے مطابق جب ان کا محبوب مجلس میں داخل ہوا تو شمع کا نور ماند پڑ گیا۔ جب کہ اس سے پہلے شمع نے کمرا روشن کیا ہوا تھا۔ حقیقت میں ایساممکن نہیں کہ کسی انسان کا حُسن اتنا  زیادہ ہو کہ اس وجہ سے شمع کی روشنی ماند پڑ جائے۔ اور کسی چیز کو اس حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کر نا کہ حقیقت میں ایسا ممکن  نہ ہو، صنعت مبالغہ کہلاتی ہے۔

7:      شمع کے منہ پہ نور نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟

شمع کے منہ پر نور نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ  شاعر کے محبوب کے مقابل شمع کی روشنی ماند پڑ گئی اور اس کی ایسی حیثیت ہو گئی تھی جیسا کہ اس میں نور ہے ہی نہیں۔

حوالہ کے اشعار:

؎           میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں                              ساری مستی شراب کی سی ہے

؎           وہ آئے بزم میں اتنا  تو برق نے دیکھا                   پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

 

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحا، لیکن

میں جو پہنچا تو کہا، خیر یہ مذکور نہ تھا

9:      “ذکر، مذکور” کی صورت میں کون سی صنعت ہے؟ دو شعری مثالیں تحریر کریں

ذکر اور مذکور کی صورت میں صنعت اشتقاق استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ یہ دونوں الفاط ایک ہی مصدر سے بنے ہیں اور شعر میں  ایک ہی مصدر سے بنے الفاظ کا استعمال صنعت اشتقاق کہلاتا ہے۔

10:     محبوب کی محفل میں داخل ہونے پر شاعر کو کیا معلوم ہوا؟

محبوب کی محفل میں  داخل ہونے پر شاعر کو معلوم ہوا کہ اسی کا ذکر چل رہا ہے یعنی اس کے بارے میں گفت گو چل رہی  ہے مگر شاعر کے محفل میں آتے ہی موضوع تبدیل کر دیا گیا اور کہا گیا،  یہ تمہارا ذکر نہیں تھا۔

11:    محبوب نے شاعر کا ذکر کیوں روک دیا؟

اردو شعری  روایت ہے کہ محبوب ہمیشہ عاشق کو تڑپاتے اور آزماتے  ہیں، اسی تناظر میں یہاں محبوب شاعر کا  ذکر کرنے کے باوجود اس سے انکار کر رہے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہ وجہ ہے۔

12:     شاعر  کے محبوب کی مجلس میں پہنچنے پر کیا ہوا؟

شاعر کے محبوب کی مجلس میں  پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اسی کا ذکر چل رہا ہے مگر موضوع تبدیل کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تمھارا ذکر نہیں تھا۔

حوالہ کے اشعار:

؎           خلوت میں جو چومتا ہے مرے نام کے حروف                     محفل میں مری طرف کبھی دیکھتا نہیں

 

باوجودیکہ پر و بال نہ تھے آدم کے

واں پہ پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

13:     شاعر آدم کا فرشتے سے کس طرح تقابل  کر رہے ہیں؟

شاعر کے مطابق فرشتوں کے بال و پر ہیں جن کی مدد سے وہ اڑان بھرتے اور بلندیوں تک جا پہنچتے  ہیں جب کہ انسان کے پاس بال و پر نہیں اس کے باوجود اس  مقام تک جا پہنچا ہے جہاں تک پہنچنا فرشتوں کے مقدر میں نہیں۔ (فرشتوں کے اختیار میں نہیں / جہاں تک فرشتے نہیں پہنچ سکتے)

14:     اس شعر میں شاعر کس واقعہ کی طرف اشارا کر رہے ہیں؟

اس شعر میں شاعر واقعہ معراج کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انسان بال و پر نہ ہونے کے باوجود اس مقام تک جا پہنچا جہاں تک کی رسائی فرشتوں کے پاس نہیں۔ گویا یہاں سدرۃ المنتیٰ اور اس سے آگے کے مقامات کی طرف اشارا کیا جا  رہا ہے۔

15:     انسان کی کیا فضیلت بیان کی جا رہی ہے؟

            انسان کی یہ فضلیت بیا ن کی جا رہی ہے کہ وہ اُ س مقام تک پہنچا  جہاں تک پہنچنا فرشتوں کے بس میں نہیں۔

16:     صنعت تلمیح کی تعریف کریں اور شعری مثال تحریر کریں

تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اشارا کرنے کے ہیں۔ادبی  اصطلاح میں اس سے مراد کسی خاص واقعہ کی طرف چند الفاظ میں اس طرح اشارا کرنا ہے کہ، اُس سے پوری بات سمجھ آ جائے یا پورا واقعہ ذہن میں آ جائے۔

            ؎           آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے                کیا پھر کسی کو کسی کا امتحان مقصود ہے

            ؎            کیا کِیا خضر نے اسکندر سے                               اب کسے رہنما کرے کوئی

حوالہ کے اشعار:

؎           جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا            تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا

؎           فرشتے سے بڑھ کر ہے  انساں بننا                        مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

 

پرورشِ غم کی ترے یاں تئیں تو کی، دیکھا

کوئی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا

17:     پرورشِ غم سے کیا  مراد لی جا رہی ہے؟

پرورشِ غم سے مراد انسان کو کسی مستقل غم کا لگنا ہے، یعنی ایسے غم کا سامنا ہو جب کہ کوشش کے باوجود اس سے نجات نہ مل رہی ہو۔

18:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں؟

اس شعر کے مطابق شاعر کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمھارا غم اس انداز میں پالا کہ وہ بالآخر ناسور کی صورت اختیار کر گیا۔ ناسور سے مراد ایسا زخم ہے جس کا علاج  ممکن نہ ہو۔یعنی شاعر محبوب کی محبت میں اس قدر شدت سے گرفتار ہوا کہ اس کا علاج ہی ممکن نہ رہا اور آخری انجام موت کے سوا کچھ نہ رہا۔

19:     شاعر کو کیا غم ہے؟

شاعر کوفراق یعنی محبوب سے جدائی اور اس کی بے التفاتی کا غم ہے جو بڑھتے بڑھتے  ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

حوالہ کے اشعار:

؎           غم کی تشریح بہت مشکل تھی                           اپنی تصویر دکھا دی ہم نے

؎           داغوں کی اپنے کیوں نہ کرے دردؔ پرورش             ہر باغباں کرے ہے گلستاں کی احتیاط

 

محتسب آج تو مے خانے میں تیرے  ہاتھوں        

دل نہ تھا کوئی، کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا

20:     محتسب نے کیا کِیا؟

             شاعر کے  مطابق محتسب  نے مے خانے میں موجود تمام  لوگوں کو  مے نوشی سے روک کر ان کے دل توڑے ہیں۔

21:     لوگوں کے دل کس طرح چور ہوئے؟

            محتسب کے لوگوں کو مے نوشی سے روکنے پر لوگوں کے دل اس طرح چور ہوئے جیسے کوئی شیشہ چور چور ہوتا ہے۔

22:     تشبیہ کی تعریف کریں، نیز ارکان کے نام تحریر کریں اور دو شعر تحریر کریں

تشبیہ عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ   لفظ “شبہ” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں  “مماثل ہونا،تمثیل، مشابہت” وغیرہ۔اصطلاح میں علمِ بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی مشترک صفت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں: مشبہ، مشبہ بہ، حرف تشبیہ، وجہ تشبیہ، غرض تشبیہ

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

؎           نازکی اس کے لب کی کیا کہیے                پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

23:     شعر میں موجود  ارکان تشبیہ کی نشان دہی کریں

            مشبہ:                 دل

            مشبہ بہ:              شیشہ

            حرفِ تشبیہ:         کی طرح

            وجہ  تشبیہ:            نازکی

            غرض تشبیہ:         دل کا ٹوٹنا/ دل کا نازک ہونا

24:      مجاز مرسل کی تعریف کریں، نیز اس شعر میں مجاز مرسل کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اصطلاح میں مجازِ مرسل وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔ مجاز مرسل کی ایک قسم جزو بول کر کُل مراد لینا ہے۔ اس شعر میں یہ قسم استعمال ہو رہی ہے۔ “دل” انسان کے جسم کا حصہ ہے جب کہ دکھی انسان ہوا ہے، اس صورت میں جسم کا ایک حصہ بول کر پورا انسان مراد لیا جا رہا ہے۔

            مے خانے میں ایک انسان نہیں تھا بل کہ کئی انسان تھے، اس طرح واحد بول کر جمع مراد لی جا رہی ہے۔

حوالہ کے اشعار:

؎           رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو                        تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

 

درد ؔکے ملنے سے اے یار! برا کیوں مانا

اس کو کچھ اور سوا  دید کے، منظور نہ تھا

25:     محبوب کو کیا برا لگا؟

محبوب کو عاشق کا سامنے آنا اور ملنا برا لگا۔ اردو شعری  روایت کے مطابق محبوب ہمیشہ عاشق کو تڑپاتا اور اس سے جدا رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ عاشق سے سامنا نہ ہو، جب کہ اس شعر کے مطابق عاشق یعنی شاعر کسی طرح محبوب تک پہنچ گئے، اس وجہ سے انھوں نے برا منایا۔

26:     کس کو دید کے سوا کچھ منظور نہ تھا؟

            اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر اپنا تخلص استعمال کر  رہے ہیں، دوسرے مصرے میں لفظ “اس کو” خود شاعر ہی کی طرف اشارا ہے کیوں کہ پہلے مصرعے میں شاعر کا ذکر چل رہا ہے۔ لہٰذا  شاعر کو دید کے سوا کچھ منظور نہ تھا۔

27:     شاعر محبوب سے کیوں ملا؟

            شاعر محبوب سے اس لیے ملا کیوں کہ وہ اس کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی تمنا نہ تھی۔

 

حوالہ کے اشعار:

            ؎           نہ تڑپنے  کی اجازت نہ فریاد کی ہے                      گھٹ کر مر جاؤں یہ مرضی صیاد کی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!