شہزادے کا چھت پر سونا اور پری کے ہاتھوں اغوا ہونا

شہزادے کا چھت پر سونا اور پری کے ہاتھوں اغوا ہونا

 

نوٹ:  اس نظم کے کسی بھی نظمیہ جزو کی تشریح آنے کی صورت میں یہ پس منظر تشریح میں لکھا جا سکتا ہے۔

پس منظر:      

مثنوی ایسی طویل نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر میں قافیہ، یا قافیہ  و ردیف الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس میں فرضی یا حقیقی داستان ، واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ہر شعر میں ردیف و قافیہ الگ ہونے کی وجہ سے ہی اس کا نام مثنوی پڑا ،کیوں کہ یہ عربی لفظ “مُثنیٰ” سے نکلا ہے جس کے معنی  دو کے ہیں۔

www.universalurdu.com

یہ اشعار مشہور مثنوی “سحر البیان” کے ہیں جس کا کچھ حصہ ہمارے نصاب میں “شہزادے کا چھت پر سونا اور پری کے ہاتھوں اغوا ہونا” کے نام سے شامل ہے۔ اس مثنوی میں شہزادہ بے نظیر اور شہزادی بدرمنیر کا قصہ شامل ہے۔

اس میں کردار مندرجہ ذیل ہیں

شہزادہ (شاہ زادہ):                بے نظیر

شاہ زادی:                          بد رمنیر

شاہ زادی کی دوست:              نجم النسا

پری:                                ماہ رخ 

جنات کا بادشاہ:                    فیروز

کسی ملک کا بادشاہ جو کہ اپنے عدل اور نرم دلی سے عوام میں مقبول تھا، اسے اولاد جیسی نعمت سے  محرومی کا سامنا تھا۔ وہ اسی غم میں بادشاہت اور دنیا ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے وزیر اورمشیر اسے وقتی طور پر اس فیصلے سے روک لیتے ہیں۔شاہی نجومیوں کو بلایا جاتا ہے  تو وہ بادشاہ کو ایک بیٹے کی خوش خبری سناتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کی زندگی میں موجود خطرات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کی بتائی گئی احتیاطوں میں سے ایک احتیاط یہ ہوتی ہے کہ شہزادے کو بارہ سال تک کھلے آسمان تلے نہ سونے  دیا جائے۔ بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کی خوب صورتی دیکھتے ہوئے اس کا نام بے نظیر رکھ دیا جاتا ہے۔

شہزادہ  12 سال محل کے اندر رہتا ہے۔ 12 سال بعد، بادشاہ کے حساب سے اس کی مقررہ عمر پوری ہو چکی ہےجب کہ اصل میں، ایک دن باقی ہوتا ہے۔ اس دن موسم کی خوب صورتی دیکھ کر شہزادہ چھت پر سونے کی فرمائش کرتا ہے تو بادشاہ اجازت دے دیتا ہے کیوں کہ اس کے حساب سے مقررہ مدت پوری ہو چکی ہے۔

www.universalurdu.com

آدھی رات کو وہاں سے ایک پری گزرتی ہے جس کا نام ماہ رخ پری ہے۔ وہ شہزادے کو دیکھتی ہے تو اسے  پلنگ سمیت اٹھا کر اپنے محل لے جاتی ہے۔ شہزادے کے گم ہونے پر  اس کی بہت تلاش کی جاتی ہے مگر وہ نہیں ملتا۔

چوں کہ شہزادہ ابھی 12 سال کا ہے اس لیے وہ بہت غمگین رہتا ہے تو ماہ رخ پری اسے اڑنے والا گھوڑا دیتی ہے اور ایک دیو کو اس کی نگرانی پر لگا دیتی ہے۔ ایک دن شہزادہ گھوڑے پر سیر کر رہا ہوتا ہے تو اسے شہزادی بدر منیر کا باغ دکھائی دیتا ہے اور وہ باغ میں اتر جاتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد دیو ماہ رخ پری کو شہزادے کی محبت کا بتا دیتا ہے تو وہ شہزادہ بے نظیر کو کوہ قاف کے ایک اندھے کنویں میں  قید کر دیتی  ہے۔

شہزادی بدرمنیر اپنی سہیلی نجم النسا  کی مدد سے شہزادے کی تلاش میں نکلتی ہے اور بہت سی مشکلوں اور امتحانات کا سامنا کرنے کے بعد جنات کے بادشاہ فیروز کے پاس جا پہنچتی ہے۔ جنات کے بادشاہ کی مدد سے  شہزادہ بے نظیر رہا ہوتاہے۔ شہزادہ اور شہزادی شادی کر لیتے ہیں، جب کہ اس کی سہیلی نجم النسا، فیروز شاہ سے شادی کر لیتی ہے۔

نصاب میں اس مثنوی کا وہ حصہ شامل ہے جس کے مطابق شہزادہ چھت پر سونے کی فرمائش کرتا ہے اور اس کی فرمائش کے پورا ہونے کے بعد پری اسے اغوا کر لیتی ہے۔

 

قضا را وہ شب تھی شبِ چار دہ                    پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ

نظارے سے تھا اس کے دل کو سرور              عجب عالمِ نور کا تھا ظہور

عجب لطف تھا سیرِ مہتاب کا                       کہے تو کہ دریا تھا مہتاب کا

1:     ان اشعار میں بیان کردہ رات کا منظر تحریر کریں

ان اشعار کے مطابق  وہ چودھویں کی رات تھی اور ہر جگہ چاند کے حسن کا جلوہ تھا۔ چاند کی روشنی اتنی زیادہ تھی جیسے ہر جگہ نور ہی نور ہو۔شاعر کے مطابق ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے چاند میں سے چاندنی کا دریا بہہ رہا ہو۔

www.universalurdu.com

2:     کس کے دل کو نظارے سے سرور تھا؟

          نظم کے اس حصے میں شہزادے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ وہ چاند کی چاندنی اور نظارے سے لفظ =اندوز ہو رہا تھا۔

3:     مہتاب کے دریا  سے کیا مراد ہے؟

مہتاب کے دریا سے یہ مراد ہے، اس رات چاند کی روشنی اپنے  عروج پر تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے چاندنی کا دریا بہہ رہا ہو اور ہر چیز اس میں بسی ہوئی ہو۔

ہوا شاہ زادے کا دل بے قرار                   یہ دیکھی جو واں چاندنی کی بہار

کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ              کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ

کہا شہ نے اب تو گئے دن نکل            اگر یوں ہے مرضی، تو کیا  ہےخلل

4

 

:       شاہ زادے کا دل کیوں بے قرار ہوا؟

شاہ زادے کا دل مناظر فطرت میں چاندنی کی بہار اور خوب صورت نظارےکو دیکھ کر بے قرار ہوا۔

5:     دوسرے شعر میں “مہ” کس کو کہا جا رہا ہے؟

دوسرے شعر میں مہ شہزادے کو کہا جا رہا ہےکیوں کہ اس کی خوب صورتی بھی بے مثل تھی اور اسی خوب صورتی کی وجہ سے اس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔

6:     دوسرے  شعر میں موجود استعارہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ارکان واضح کریں

دوسرے شعر میں شہزادے کو “مہ” کہا جا رہا ہے  جو کہ اس کی خوب صورتی کی طرف اشارا ہے۔

مستعار لَہُ:             شہزادہ بے نظیر/ شہزادہ

مستعار مِنہُ:            مہ

وجہ جامِع:                 شہزادہ چاند کی طرح خوب صورت ہے۔ شہزادے کی خوب صورتی کا ذکر کرنا

7:     آخری شعر میں شہ سے کون مراد ہے؟

آخری شعر میں شہ سے مراد شہزادے کے والد، یعنی مثنوی میں بیان کردہ  سلطنت کے بادشاہ مراد ہیں۔

www.universalurdu.com

8:     کون سے دن نکل جانے کا ذکر کیا جا رہا ہے؟

شہزادے کی پیدائش کے وقت شاہی نجومی نے پیشین گوئی (پیش گوئی) کی تھی کہ بارہ سال تک شاہ زادے  کو چھت پر  نہیں سلانا ورنہ مصیبت/مشکل آ جائے گی۔ یہاں بادشاہ بھی  انہی 12 سالوں کا  ذکر کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ وہ دن گزر گئے جب کہ ایک دن ابھی باقی تھا۔

9:     کس کی، کون سی مرضی کا ذکر کیا  جا رہا ہے؟

یہاں شہزادے کی چھت پر سونے کی فرمائش کا ذکر ہے اور بادشاہ فرما رہے ہیں کہ وہ 12 سال گزر چکے ہیں جن میں مشکلات کا خطرہ تھا، لہٰذا اگر آپ چھت پر سونا چاہتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔

 

قضارا وہ دن تھا اسی سال کا               غلط وہم ماضی میں تھا حال کا

سخن مولوی کا یہ سچ ہے قدیم             کہ آگے قضا کے احمق ہو حکیم

وہ سونے کا جو تھا جڑاؤ پلنگ              کہ سیمین تنوں کو ہو جس پر امنگ

10:   پہلے شعر میں شاعر کیا کہہ رہے ہیں؟

پہلے شعر  میں شاعر یہ کہہ رہے ہیں کہ بدقسمتی سے وہ دن، ان ہی 12 سالوں کا تھا جن میں شہزادے کو باہر نہیں سونا چاہیے تھا مگر بادشاہ کی گنتی میں غلطی آ جانے کی وجہ سے وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ دن گزر چکے ہیں۔

11:   پہلے شعر میں بیان کردہ صنعت کی تعریف کرتے ہوئے شعر مثال تحریر کریں

پہلے شعر میں “ماضی،حال” متضاد الفاظ ہیں اور شعر میں متضاد الفاظ کا آنا صنعت تضاد کہلاتا ہے۔

؎         زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

www.universalurdu.com

12:   مولوی کا کون سا سخن/قول سچ ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟

مولوی یعنی کسی دانا شخص  کا یہ سخن(قول)  سچ ہے کہ جب قضا کا وقت آتا ہے یعنی بری تقدیر نے آنا ہوتاہے تب تمام کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور  وہ ہو کر رہتا ہے جسے ہونا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی شخص کی موت کا وقت آ چکا ہو تو  پھر حکیم جتنی مرضی کوشش کر لے، وہ بھی کوئی نہ کوئی خطا کر دے گا اور انجام سامنے آکر رہے گا۔

13:    شہزادے کا پلنگ کس طرح  کا تھا؟

شہزادے کا پلنگ جڑاؤ پلنگ تھا۔ جڑا ؤ پلنگ ایسے پلنگ کو کہتے ہیں جو سونے چاند ی سے بنا ہو اور اسے ہیروں، جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا سے مزین(سجایا گیا)  کیا گیا ہو۔

14:   آخری مصرعے میں کیا  کہا  جا رہا ہے؟

آخری مصرعے میں کہا جا رہا ہے کہ شاہ زادے کا پلنگ اتنا خوب صورت، قیمتی اور آرام دہ تھا کہ ہر کسی کی خواہش تھی وہ اس پر سوئے۔ یہاں سیمین بدن سے مراد چاندی جیسا خوب صورت  جسم  مراد ہے۔ یعنی حسین لوگ بھی اس پلنگ کی تمنا ہی کر سکتے  تھے۔

www.universalurdu.com

 

        کھنچی  چادر ایک اس پہ شبنم کی صاف      کہ ہو چاندنی ، جس صفا کی غلاف 

        دھرے اُس پہ تکیے کئی نرم نرم          کہ مخمل  کو ہو جس کے دیکھے سے شرم

        کبھی نیند میں جب کہ ہوتا تھا وہ          تو رخسار رکھ اُس پہ سوتا تھا وہ

15:   پہلے شعر میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے۔ اس کی وضاحت کریں نیز شعری مثال دیں

پہلے شعر میں الفاظ “صاف،صفا” کی صورت میں صنعت اشتقاق استعما ل ہو رہی ہے کیوں کہ لفظ “صاف” ،  “صفا”  سے مشتق ہے۔

؎         دن کٹا   فریاد میں اور رات زاری میں کٹی            عمر کٹنے کو کٹی، پر کیا ہی خواری میں کٹی

          اس شعر میں الفاظ “کٹا، کٹی، کٹنے” ایک ہی مادہ یعنی “کٹ” سے مُشتق ہیں۔

16:   کس پر شبنم کی چادرتھی؟

17:   شبنم کی چادر کیسی تھی؟

پہلے شعر میں شاعر شاہ زادے کے پلنگ  پر بچھی چادر کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ شبنم کے کپڑے سے بنی تھی۔ شبنم  کا کپڑا انتہائی نرم اور آرام دہ ہوتا ہے۔ اور اس کی صفائی کی یہ کیفیت تھی جیسے چاند کی چاندنی  جو کہ صفا کی مقدس پہاڑی پر پڑ رہی ہو۔ اس طرح شاعر چادر کی خوب صورتی اور تقدس و پاکیزگی بیان کر رہے ہیں۔

18:   لفظ “صفا” کس طر ح تلمیح ہے؟

شعر میں کسی بھی تاریخ واقعہ ، مقام یا مذہبی اہمیت کی جگہ کا ذکر چند الفاظ میں اس طرح بیان کرنا کہ اس کی پوری تاریخ ذہن میں آ جائے، صنعت تلمیح کہلاتی ہے۔ یہاں لفظ صفا سے کوہِ صفا مراد ہے جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ  حضرت ہاجرہ ؑکے سات چکر اور پھر آبِ زم زم کے جاری ہونے کا واقعہ اور صفا و مروہ کی سعی کا حج و عمرہ کے ارکان میں شامل ہونا، ذہن میں آتا ہے۔

www.universalurdu.com

19:   اس بند کے دوسرے شعر میں “نرم نرم” کی صورت میں صنعت تکرار استعما ل ہو رہی  ہے۔ شعری مثال سےو ضاحت کریں

          ؎         خوشبو سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ           غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

          اس شعر میں لفظ ‘باغ’ کی تکرار ہو رہی ہے۔

20:   آخری شعر میں “وہ” کس کو کہا جا رہا ہے؟

          آخری شعر میں شہزادے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اوپر بیان کردہ خصوصیات کے حامل پلنگ پر سوتا تھا۔

21:   آخری شعر کا مفہوم بیان کریں؟

          آخری شعر میں شہزادے کے پلنگ پرسونے کا  منظر  بیان کیا جا رہا ہے کہ شہزادہ اس پلنگ پر رخسار رکھ کر سوتا تھا۔

 

 

        چھپائے سے ہوتا نہ، حُسن اس کا ماند              دیے تھے لگا اس کے مکھڑے کو چاند

        وہ سویا جو اس آن سے بے نظیر                   رہا پاسباں اس کا بدرِ منیر

        ہوا اس کے سونے پہ عاشق جو ماہ                 لگا دی اُدھر اس نے اپنی نگاہ

22:    پہلے شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور مثال  دیں

پہلے شعر میں چار چاند لگانا کا محاورہ رعایتِ لفظی استعمال کرتے ہوئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ شعر میں محاورات یا ضرب الامثال کا استعمال صنعت ایراد المثل کہلاتا ہے۔

؎         خوشبو سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ              غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

اس شعر میں “”باغ باغ ہونا” اور “دل کے داغ ہرے ہونا” کی صورت میں محاورات استعمال کیے جا رہے ہیں۔

23:   شاہ زادے کا حسن کیسا تھا؟ شہزادے کے حسن کی کیا کیفیت تھی؟

شہزادہ بے مثال حسن کا حامل تھا۔ چھپانے پر بھی اس کا حسن  نہیں چھپتا تھا۔ اور رات کے منظر نے اس کے حسن کو مزید چاند لگا دئے تھے۔

24:   شہزادے کا پاسبان کون تھا؟

شاعر کے مطابق شہزادے کا پاسبان بدرِ منیر یعنی چودہویں رات کا چاند تھا۔ کیوں  کہ  شہزادے کے محافظ بھی پیارے موسم کی وجہ سے سو گئے، یوں اس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ دوسرے معنوں میں شہزادے کی تنہائی  کا ذکر ہے کہ اسے بچانے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ بس چاند جاگ رہا تھا باقی سب سوگئے۔

www.universalurdu.com

25:   شہزادے کے سونے پر ماہ کے عاشق ہونے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ شہزادے کے سونے کے انداز اور اس کے حسن کو دیکھ کر چاند اس کا عاشق ہو گیا۔

 

26:   چاند کے شہزادےکے عاشق ہونے  پر کیا ہوا؟

شاعر کے مطابق جب چاند شہزادے پر عاشق ہوا تو اس نے شہزادےکو نظر لگا دی۔

27:   آخری شعر میں صنعت حسن تعلیل کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

صنعت حسن تعلیل سے مراد کسی واقعہ کی وہ وجہ بیان کرنا ہے جو اس کی اصل وجہ نہ ہو۔  اس شعر میں شاعر، شاہ زادے کو نظر لگنے کی وجہ چاند کو قرار دے رہے ہیں، یعنی چاند نے شہزادے کونظر لگا دی ہے حالاں کہ نظرِ بد  کسی حاسد کی وجہ سے لگتی ہے نہ کہ چاند کی وجہ سے۔ یوں شاعر نظر بد لگنے کی کوئی اور وجہ بیان کر رہے ہیں جو کہ اصل وجہ نہیں اور یوں اس شعر میں حسنِ تعلیل استعمال کی جا رہی ہے۔

www.universalurdu.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!