غزل احمد ندیم قاسمی

تعارف:

احمد ندیمؔ  قاسمی اردو ادب کے مشہور شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے تنقید پر بھی کام کیا ہے ۔ آپ کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا ،مگر آپ شدت پسندی کے قائل نہیں تھے۔ بعد میں یہ ترقی پسند  تحریک سے جدا ہو گئے۔ احمد ندیم  قاسمی کے دو اسلوب ملتے ہیں۔  وہ افسانوں میں دیہاتی زندگی، وہاں کی مشکلات اور لوگوں کے مسائل بیان کرتے ہیں  اور اس کی کامیاب عکاسی کرتے ہیں۔ جب کہ ان کی شاعری میں عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ میرؔ  جیسا دھیما لہجہ اور موجودہ مسائل کا ذکر پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں مایوسی کے بجائے امید کے عناصر زیادہ ہیں۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں، سمندر میں اتر جاؤں گا

تشریح

احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر ان کی غزل کا مطلع بھی ہے کیوں کہ اس میں “مر” اور” اتر” کی صورت میں قافیہ، جب کہ “جاؤں گا” کی صورت میں ردیف استعمال ہو رہی ہے۔ یہاں احمد ندیم قاسمی احسن انداز میں اسلامی صوفیانہ نظریہ بیان کر رہے ہیں کہ، انسانی زندگی فنا  نہیں ہوتی، بل کہ موت ایک نئی زندگی کا پیغام ہے۔  اس کی مثال ایسے ہے کہ یہاں کا اختتام اور یہاں کی شام گویا اگلی زندگی کی صبح ہے اور یہی پیغام علامہ اقبال کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

یہاں شاعر بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ،  اگر لوگوں کے مطابق یہ زندگی ہی سب کچھ ہے ، تو وہ غلط ہے۔ کیوں کہ یہاں کی زندگی کی مثال ایک چھوٹے سے دریا کی سی ہے ، جو کہ سمندر میں اتر کر اپنی حیثیت  تو کھو  دیتا ہے مگر ایک وسیع وجود کا حصہ بن جاتا ہے ۔ بالکل اسی طریقے سے یہاں کی زندگی جب ختم ہوتی ہے ، تو وہ ایک ایسے دریا میں شامل ہو جاتی ہے،  جس کی کوئی انتہا نہیں  اور نہ کوئی زوال ہے۔  انسانی زندگی کی مثال بھی ایسی ہے، نہ موت کا کوئی خطرہ  نہ زوال، وہ ایک ہمیشہ کی رہنے والی زندگی ہے۔

 اس شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کے مر جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو وہ غلط ہے ،کیوں کہ انسان یادوں کی صورت میں بھی زندہ رہتا ہے اور اس کے افکار و اقوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ رہتے ہیں۔ اور جب ایک انسان خود شاعر اور ادیب ہو، اس کی تحریروں اور شاعری کی صورت میں اس کے افعال، اس کے خیالات، سوچ اور نظریات لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ منٹو کے حوالے سے کہا جاتا ہے، سعادت حسن تو مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا ،بالکل اسی طریقے سے یہاں پر بھی شاعر یہی مراد لے رہے ہیں کہ میرا جسم ،میرا وجود تو ختم ہو جائے گا، مگر میری سوچ باقی رہے گی۔ اسی مضمون کا اظہار احمد ندیم قاسمی اپنی اسی غزل کے مقطع میں کچھ یوں کرتے ہیں

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ

بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

یہاں شاعر انتہائی خوبصورتی سے استعارہ استعمال کرتے ہوئے خود کو دریا کہہ رہے ہیں۔  دوسرے معنوں میں دیکھا جائے تو  سب دریا ایک اکائی کی حیثیت میں الگ الگ پہچان رکھتے ہیں اور یہی “جزو” جب ایک “کُل” یعنی سمندر میں ملتے ہیں تو ان کی اپنی پہچان تو کھو جاتی ہے، مگر وہ ایک وسیع پہچان کے حامل بن جاتے ہیں۔  یہاں پر شاعر بھی اسی طرف اشارا کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ میں بھی اس پوری کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوں ،مگر جب میں فنا ہو جاؤں گا تو میں اپنے کُل یعنی اس پوری کائنات کے اس حصے میں سے مل جاؤں گا جہاں پر میری پہچان یہ کائنات بن جائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!