غزل علامہ اقبال

غزل علامہ اقبال

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں   میں زمینوں میں

وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں

1:      ردیف کی تعریف کریں، اس شعر میں موجود ردیف کی نشان دہی کریں

ردیف عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی “گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والا” کے ہیں۔ ردیف وہ الفاظ ہوتے ہیں جو شعر میں قافیہ کے بعد آتے ہیں اور یکساں ہوتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں ردیف سے مراد وہ لفظ ہے جو اشعار میں قافیہ کے بعد آتا ہے اور ہر شعر میں دہرایا جاتا ہے۔ اس شعر میں لفظ “میں” ردیف ہے۔

2:      قافیہ کی تعریف کرتے ہوئے شعری مثال میں سے قافیہ نکالیں

قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور “قفو” سے نکلا ہے۔ اس کے معنی “پیروی کرنا یاپیچھے آنا” کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ ہم آواز الفاظ ہیں جو شعر میں بار بار آتے ہیں۔ یہ عموما ردیف سے پہلے آتے ہیں، مگر شعر میں ان کا متعین مقام نہیں۔

3:      غزل کی تعریف کریں

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی  “عورتوں سے بات کرنا، حسن و عشق کی بات کرنا” کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ صنفِ سخن ہے جس کا ہر شعر الگ معانی رکھتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں جو ہم قافیہ ہوتا ہے۔ غزل کے بہترین شعر کو شاہ بیت کہتے ہیں۔

https://universalurdu.com

4:      مطلع کی تعریف کریں اور شعری مثال لکھیں

مطلع عربی زبان کا لفظ ہے جو “طلع” سے نکلا ہے۔ اس کے معنی” آغاز، طلوع ہونے کی جگہ” کے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جو کہ ہم قافیہ بھی ہوتا ہے۔

5:      صنعت تضاد کی تعریف کریں، نیزاس شعر میں کس طرح صنعت تضاد استعمال کی گئی ہے؟

شعر میں متضاد الفاظ کا آنا صنعت تضاد کہلاتا ہے۔ اس شعر میں “آسمانوں، زمینوں ” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ یہ متضاد الفاظ ہیں۔

 

6:      اس شعر کا مفہوم لکھیں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جن کی تلاش میں انھوں نے بہت سا وقت صرف کیا اور ہر جگہ تلاش کیا، وہ خود ان کے وجود اور دل میں موجود تھے مگر انھیں اس چیز کا ادراک نہیں تھا۔

7:      شاعر کی تلاش کا کیا نتیجہ نکلا؟

شاعر کی تلاش کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ جسے تلاش رہے تھے، وہ ان کے دل کی گہرائیوں میں موجود تھا۔

8:      تصوف کے تناظر میں اس شعر سے کیا مراد لی جا سکتی ہے؟

تصوف کے تناظر میں علامہ اقبالؔ کے اس شعر سے یہ معنی نکلتا ہے کہ انھوں نے خدا کی تلاش کے لیے ہر کام کیا، ہر طرح کی عبادت کی مگر بعد میں انھیں احساس ہوا کہ رب تعالیٰ کی ذات کی نشانیاں ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اور انھیں ادراک نہیں۔

شاعر نے اللہ تعالیٰ کی تلاش کے لیے ہر کام کیا ، تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ دل کی گہرائیوں میں رہتے ہیں، اس لیے ٹوٹے دل جوڑنے کی صورت میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

https://universalurdu.com

9:      آسمانوں اور زمینوں میں ڈھونڈنے کے  کیا معنی ہیں؟

آسمانوں اور زمینوں میں ڈھونڈنے کے یہ معنی ہیں کہ خدا کو ہر جگہ اور ہر طرح کی عبادت سے تلاش کرنے اور منانے کی کوشش کرنا۔

کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں

کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں

10:     استعارہ کی تعریف کرتے ہوئے شعری مثال تحریر کریں

استعارہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے لغوی معنی، “مانگ لینا، مستعار لینا، ادھار لینا، قرض لینا، عارضی طور پر مانگ لینا” کے ہیں۔ علمِ بیان کی اصطلاح میں اس سے مراد کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی میں اس طرح استعمال کرنا کہ ان میں تشبیہ کا علاقہ/تعلق ہو، استعارہ کہلاتا ہے۔

ایک چیز کو مشترکہ صفات کی وجہ سے ہوبہو دوسری چیز قرار دینا استعارہ کہلاتا ہے۔

11:    مجنوں سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

مجنوں سے شاعر موجودہ مسلمان نوجوان مراد لے رہے ہیں۔

12:     تشبیہ کی تعریف کریں اور شعری مثال لکھیں

تشبیہ عربی زبان  کا لفظ  ہے جو کہ “شبہ” سے نکلا ہے۔ اس کے معنی “مماثل ہونا،تمثیل، مانند قرار دینا” کے ہیں۔ علمِ بیان کی رو سے تشبیہ سے مراد کسی ایک چیز کو کسی مشترکہ صفت کی بنا پر دوسری چیز جیسا قرار دینا ہے۔

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

13:     اس شعر میں کس طرح تشبیہ استعمال ہو رہی ہے، نیز ارکان نکالیں

اس شعر میں شاعر مسلمان جوانوں کو لیلیٰ کی طرح محمل نشین قرار دینے کے لیے تشبیہ استعمال کرر ہے ہیں۔

مشبہ:                 مسلم جوان          

مشبہ بہ:              لیلیٰ

حرف تشبیہ:         کی طرح

وجہ تشبیہ:            عیش پسندی، محمل نشینی

غرض تشبیہ:         عیش پسندی ظاہر کرنا

https://universalurdu.com

14:     تشبیہ اور استعارہ میں کیا فرق ہے؟

تشبیہ اور استعارہ میں فرق

1:            تشبیہ حقیقی ہوتی ہے  اور استعارہ مجازی ہوتا ہے۔

2:            تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے اور استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔

3:            تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے، جب کہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔

4:            تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں اور استعارہ کے ارکان تین ہیں۔

5:            تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے اور استعارہ اس علم کی ایک بلیغ صورت ہے۔

6:            تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے اور استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔

7:            تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر ہوتا ہے جب کہ استعارہ میں مشبہ (مستعار لہ) کا ذکر نہیں ہوتا

8:            تشبیہ میں حرف تشبیہ  ہوتا ہے جب کہ  استعارہ میں حرف تشبیہ نہیں ہوتا

15:     اس شعر میں مراعاۃ النظیر کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس شعر میں “لیلیٰ، محمل نشیں،نظارہ” کی صورت میں مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ ان سب کا تعلق عشق اور اس کے جذبات و اقعات سے ہے۔

16:     مراعات النظیر کی تعریف کریں، نیز شعری مثال لکھیں

صنعت مراعات النظیر سے مراد شعر میں ایسے الفاظ کا آنا ہے، جن کا آپس میں کوئی تعلق ہو۔ اور یہ تعلق تضاد کا نہ ہو۔

؎           پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے            جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

            اس شعر میں “پتا، بوٹا، گل، باغ” مراعات النظیر کی مثال ہیں۔

https://universalurdu.com

17:     مسلم کے محمل نشین ہونے سے کیا مراد ہے؟

مسلم کے محمل نشین ہونے سے مراد اس کا آرام پسند اور عیش پرست ہونا ہے۔ یعنی وہ کاہل اور سست ہو گیا ہے  اور اپنے اباؤ اجداد کی طرح اپنا کام خود نہیں کرتا۔

18:     شاعر مسلمان نوجوان کو اپنا نظارہ کرنے کا کیوں کہہ رہے ہیں؟

شاعر مسلم نوجوان کو اپنا نظارہ کرنے کا اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ یہ خود بھی لیلیٰ کی طرح محمل نشین ہو چکا ہے۔

شاعر مسلم نوجوان کو اپنا نظارہ کرنے کا اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ باقیوں  کی طرح یہ بھی عیش و آرام کا دلدادہ ہو چکا ہے۔اسے مغرب کی آرام دہ زندگی پر تو اعتراض ہے مگر اپنے گریبان میں جھانکنا گوارا نہیں۔

19:     شاعر مسلمان نوجوان کو مجنوں کیوں کہہ رہے ہیں؟

شاعر مسلمان نوجوان کو مجنوں اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف تو اس کا دعویٰ عشق کا ہے جو کہ سخت حالات اور مشکلات کا متقاضی ہے، اور عملی طور پر اس کے برعکس ہے۔ اسی دعویٰ کی بنا پر شاعر مسلمان نوجوان کو مجنوں کہہ رہے ہیں۔

20:     علامہ اقبال نے مسلمان نوجون کو “لیلیٰ ” سے کیوں تشبیہ دے رہے ہیں؟

علامہ اقبال نے مسلمان نوجوان کو اس کی عیش پسند اور آرام طلب فطرت کی وجہ سے لیلیٰ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

21:     اس شعر میں موجود صنعت تضاد کی نشان دہی کریں

اس شعر میں “لیلیٰ ، مجنوں” کی صورت میں صنعت تضاد ہے کیوں کہ دونوں عاشق و معشو ق ہیں۔ بہ طور جنس بھی مرد و عورت کا فرق موجود ہے۔

22:      صنعت تلمیح کی تعریف کریں اور پانچ تلمیحات لکھیں

تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے جس  کے معنی “اشارا کرنے” کے ہیں۔ یہ عربی لفظ “لمح” سے نکلا ہے۔ اصطلاح میں شعر میں کسی تاریخی واقعہ ، کہانی، مذہبی واقعہ، قرانی آیت ، حدیث کا چند الفاظ میں اس طرح ذکر کرنا کہ پورا واقعہ قاری کے ذہن میں آ  جائے ، صنعتِ تلمیح کہلاتا ہے۔ صنعت تلمیح نظم/شعر میں بھی آ سکتی ہے اور نثر میں بھی۔

؎           ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے                 پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

https://universalurdu.com

23:     اس شعر میں موجود تلمیحات کی وضاحت کریں

اس شعر میں لیلیٰ اور مجنوں کی صورت میں تلمیحات استعمال ہو رہی ہیں۔ لیلیٰ اور مجنوں کو تاریخی کردار مانا جاتا ہے۔ مجنوں کا نام قیس تھا جب کہ لیلیٰ کا نام لیلیٰ بنت سعدی  بیان کیا جاتا ہے۔یہ دونوں آپس مین محبت نہیں کرتے تھے اور لیلیٰ کی شادی کسی اور سے ہو جانے پر مجنوں پاگل ہو جاتا ہے۔

24:     شعری مثال دیتے ہوئے اس شعر میں موجود تلمیح کی وضاحت کریں

؎           ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے                 پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اس شعر میں اس واقعہ کی طرف اشارا کیا جا رہا کہ جب منگول لشکر عالمِ اسلام کو تبا کر چکا تھا تو ان میں سے ہی ایک       گروہ مسلمان ہوا اور منگول فتنے سے دنیا کو نجات دینے کے بعد اسلام کا اگلا جانشین بنا۔

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

25:     اس شعر میں صنعت تضاد کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس شعر میں ” وصل،جدائی” اور “گھڑی، مہینا” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ ان الفاظ میں تضاد کا تعلق پایا جاتا ہے۔

26:     اس شعر میں شاعر انسانی زندگی کی کون سی حقیقت بیان کر رہے ہیں؟

اس شعر میں شاعر انسان کی اس فطرت کا ذکر کر رہے ہیں جس کے مطابق انسان کو خوشی یا اچھے وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور وہ تیزی سے گزر جاتا ہے، جب کہ دکھ ، درد یا جدائی کا وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مہینے گزر گئے ہوں۔

27:     وصل کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

وصل کی صورت میں وقت مہینے بھی گھڑیوں کی صورت میں گزرتے ہیں یعنی وقت جلدی گزر جاتا ہے اور احساس تک نہیں ہوتا۔

28:     وصل سے کیا کیا معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں؟

            وصل سے “انتظار کا خاتمہ، محبوب یا پسندیدہ انسان سے ملاقات، اچھے حالات ہونا”  جیسے معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

https://universalurdu.com

29:     جدائی کی گھڑیاں کیسے گزرتی ہیں اور کیوں؟

جدائی کی گھڑیاں مہینوں میں گزرتی ہیں، یعنی کم وقت گزرنے کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ طویل وقت گزر چکا ہے۔

30:     جدائی کی گھڑیوں کے مہینوں میں گزرنے سے کیا مراد ہے؟

جدائی کی گھڑیاں مہینوں میں گزرنے سے مراد وقت کا نہ گزرنا ہے۔ یعنی انسان جدائی کی حالت میں بہت مشکل سے وقت گزارتا ہے اور یہ لمحات طویل محسوس ہوتے ہیں۔

31:     “جدائی کی گھڑیاں” سے کیا کیا معنی اخذ ہو سکتے ہیں؟

            “جدائی کی گھڑیاں” سے “ہجر کے لمحات، مشکل وقت، ناپسندیدہ حالات ” وغیرہ  کے معنی اخذ ہو  سکتے ہیں۔

 

32:     اس شعر میں موجود ردیف کی نشان دہی کریں

            اس شعر میں ردیف “میں” ہے۔          یا          میں

33:     اس شعر کا مفہوم بیان  کریں؟

اس شعر میں شاعر انسانی نفسیات اور زندگی کی حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ اچھا وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے، چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اسی طرح برا وقت یا جدائی کے لمحات بہت طویل محسوس ہوتے ہیں چاہے کتنے ہی مختصر کیوں نہ ہوں۔

مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے

کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

34:     صنعت اشتقاق کی تعریف کرتے ہوئے شعری مثال تحریر کریں

اشتقاق عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ “شق” سے مشتق ہے۔ اس کے لفظی معنی “اخذ کرنا، پیدا کرنا، دوسرا مضمون پیدا کرنا ” وغیرہ کے ہیں۔ علمِ بدیع کی اصطلاح میں اس سے مراد شعر میں ایسے الفاظ لانا ہے، جن کا مادہ یا مصدر ایک ہی  لفظ ہو۔

؎           وقت کی لوح غیر فانی ہے                    حرف مٹتے نہیں مٹانے سے

35:     اس شعر میں موجود صنعت اشتقاق کی وضاحت کریں

اس شعر میں “ڈوبنا” اور “ڈوب” دو ایسے الفاظ ہیں جن کا مصدر “ڈوبنا” ہے۔ اس طرح اس شعر میں صنعتِ اشتقاق استعمال ہو رہی ہے۔

https://universalurdu.com

36:     دوسرے مصرعے کا مفہوم بیان کریں

دوسرے مصرعے سے دو مفہوم نکلتے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ جب لوگوں کی قسمت میں ڈوبنا لکھا ہو، وہ کوشش کر کے بھی خود کو نہیں بچا سکتے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جو انسان خود ڈبونے کا فیصلہ کر چکا ہو، ہم اسے نہیں بچا سکتے۔

37:     شاعر ناخدا کو کیا چیلنج دے رہے ہیں؟

شاعر ناخداکو  یہ چیلنج دے رہے ہیں کہ تم مجھے ڈوبنے سے نہیں بچا سکتے کیوں کہ کو انسان خود کو ڈبونے کا فیصلہ کر چکا ہو اسے بچایا نہیں جا سکتا۔

38:     شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جو انسان خود کو ڈبونے کا فیصلہ کر لے ، کشتی ہوتے ہوئے بھی وہ ڈوب جاتا ہے۔ یعنی تقدیر غالب آ کر رہتی ہے۔ دوسرے معنوں میں اگر کوئی انسان خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو تو دوسروں کا سمجھانا یا مدد کرنا بے کار اور بے معنی ہے۔

جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موجِ نفس ان کی

الہی کیاچھپا ہوتا ہے اہلِ دل کے سینوں میں؟

39:     شمع کشتہ کے جلنے سے کیا مراد ہے؟

            شمع کشتہ کے جلنے کا لفظی معنی بجھی ہوئی شمع کا جلنا ہے۔ اس شعر میں اس سے مراد ناممکن کام کا ممکن ہو جانا ہے۔

40:     شمع کشتہ کو کیا چیز جلا سکتی ہے؟

            شمع کشتہ کو موجِ نفس جلا سکتی ہے۔

41:     اہلِ دل سے کون لوگ مراد ہیں؟

            اہلِ دل سے مراد اولیاء اللہ، متقین اور اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں۔

https://universalurdu.com

42:     اس شعر میں شاعر کی وجۂ حیرت کیا ہے؟َ

اس شعر میں شاعر کی وجۂ حیرت یہ ہے کہ اہلِ دل کے ہاں ایسی کون سی  قوت پائی جاتی ہے کہ وہ لمحوں میں ناممکن سے ناممکن کا انجام دے سکتے ہیں۔

43:     شاعر کس تجسس کا شکار ہے؟

شار اس تجسس کا شکار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ دل کے سینوں میں ایسی کون سی قوت رکھی ہوتی ہے کہ وہ پھونک مار کر بجھی شمع جلا سکتے ہیں، یعنی پل بھر میں ناممکن کام کو بھی ممکن کر دکھاتے ہیں۔

44:     شاعر اللہ تعالیٰ سےکیا سوال کر رہے ہیں؟

شاعر اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہے ہیں کہ اے اللہ آپ نے اہلِ دل کے سینوں میں ایسی کون سی قوت رکھی ہوتی ہے کہ وہ پھونک مار کر بجھی ہوئی شمع جلانے جیسا ناممکن کام بھی کر سکتے ہیں۔

 

 

45:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ علامہ اقبال متجسس ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ دل یعنی اپنے مقربین کے سینوں میں ایسی کون سی قوت رکھی ہوتی ہے کہ وہ پھونک جو شمع بجھاتا ہے، وہ اسی پھونک سے بجھی شمع جلا سکتے ہیں، یعنی ناممکن نظر آنے والا کام بھی پل بھر میں انجام دے لیتے ہیں۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

46:     مسلسل اور غیر مسلسل غزل میں فرق واضح کریں

مسلسل غزل ایسی غزل کو کہتے ہیں جس کے اشعار کے معنی میں ربط پایا جاتا ہے، یعنی وہ شعر ایک ہی بات / موضوع سے متعلق ہوتے ہیں۔ جب کہ غیر مسلسل غزل ایسی غزل ہوتی ہے جس کا ہر شعر الگ معنی کا حامل ہوتا ہے۔

47:     مردف غزل سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مردف غزل کے اشعار ہیں؟

مردف غزل ایسی غزل کو کہتے ہیں جس میں ردیف ہوتی ہے۔علامہ اقبال کی یہ غزل، مردف غزل ہے کیوں کہ اس میں “میں” کی صورت میں ردیف موجود ہے۔

https://universalurdu.com

48:     غزل کے ایک جیسے معانی والے اشعار کو کیا کہتے ہیں؟

            غزل کے ایک معنی والے اشعار کو قطعہ بند کہتے ہیں۔

49:     خرقہ پوش کن کو کہا جا رہا ہے؟

خِرقہ عربی الاصل لفظ ہے جس کے معنی “کپڑے ” کے ہیں ، جب کہ “پوش” فارسی الاصل لفظ ہے جس کے معنی “پہننا” کے ہیں۔ خرقہ ایک خاص قسم کا لباس ہوتا ہے جو فقیر اپنے مرید کو پہننے کے لیے دیتے تھے۔ اس کو “گُڈری” بھی کہتے ہیں۔ اصطلاح میں خرقہ پوش سے مراد “اولیاءاللہ، سالکین، فقیر “وغیرہ ہیں۔ 

50:     یدِ بیضا کون سی صنعت ہے، تعریف کرتے ہوئے شعری مثال دیں

            یداِ بیضا صنعت تلمیح ہے۔ (تعریف سوال نمبر  22)

؎           آگ ہے، اولادِ ابراہیم ؑ ہے، نمرود ہے                کیا پھر کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے

51:     شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو اپنے فضل سے ایسی صلاحیتوں اور کرامات سے نوازا ہوتا ہے کہ وہ پل بھر میں ناممکن کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔

52:     کون اپنی آستینوں میں یدِ بیضا لیے بیٹھا ہے؟

            خرقہ پوش اپنی آستینوں میں یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں۔

53:     یدِ بیضا کے آستینوں میں ہونے سے کیا مراد ہے؟

            ید بیضا کے آستینوں میں ہونے سے مراد ناممکن کام کا ممکن کرنا یا کرامات کا ظاہر ہونا ہیے۔

https://universalurdu.com

54:     یدبیضا کے پیچھے موجود واقعہ بیان کریں

ید کا لفظی معنی “ہاتھ”، جب کہ بیضا “سفید” کو کہتے ہیں۔ اس کا عمومی معنی “روشن ہاتھ ” لیا جاتا ہے۔ یدِ بیضا قرآنی تلمیح ہے۔ اس کے پیچھے حضرت موسیؑ کو کوہِ طور پر نبوت ملتے وقت وہ معجزہ عطا ہونا ہے، جس کے مطابق جب حضرت موسیؑ اپنی آستین میں ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے تو وہ روشن ہو جاتا تھا۔

محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا

یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

55:     محبت کے لیے کیا شرط ہے؟

            محبت کے لیے دل کا نازک ہونا شرط ہے۔

56:     اس شعر میں موجود استعارہ کی نشان دہی کریں

اس شعر میں محبت کے لیے لفظ مے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح وہ استعارہ ہے۔ دوسرا لفظ نازک آبگینے کی صورت میں دل کے لیے استعارہ ہے۔

57:     ارکانِ استعارہ کی تعریف کریں، نیز اس شعر میں موجود ارکان استعارہ کی نشان دہی کریں

ارکانِ استعارہ تین ہیں:

مستعار لہ: وہ شخص یا چیز جس کے لیے استعارہ کا لفظ لایا جا رہا ہو

مستعار منہ:          استعارہ کا لفظ ،        یا          وہ لفظ جو استعارہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو

وجہ جامع:            مستعار لہ اور مستعارہ منہ کی مشترکہ صفت وہ صفت جس کی وجہ سے استعارہ دیا جا رہا ہو

58:     “ٹوٹنے والا”، “نازک آبگینے”، “مے” کس صنعت کی طرف اشارا کرتے ہیں؟ وضاحت کریں

“ٹوٹنے والا، نازک آبگینے، مے” کا تعلق ایک ہی نوع کی اشیا یعنی مے نوشی کے لوازمات سے ہے۔ اس طرح یہ صنعتِ مراعات النظیر کی طرف اشارا کرتے ہیں۔

59:     محبت کو مے کیوں کہا جا رہا ہے؟

محبت کو مے اس لیے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح مے کا نشہ ہوتا ہےاور انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور جسے اس کی عادت ہو جائے، وہ عادت نہیں چھوٹتی ،محبت بھی بالکل ان ہی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

60:     محبت کے نازک آبگینے میں ہونے سے کیا مراد ہے؟

محبت کے نازک آبگینے میں ہونے سے مراد محبت کا نرم اور ٹوٹنے والے دل میں ہونا ہے۔

https://universalurdu.com

61:     محبت کو کہاں رکھتے ہیں؟

محبت کو نازک آبگینوں میں رکھتے ہیں۔

62:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر  میں علامہ اقبال نصیحت کر رہے ہیں کہ اگر تمھیں محبت کرنے والے دل تلاش کرنا ہیں،  تو ایسے لوگوں کے پاس جاؤ جن کے دل نرم و نازک اور ٹوٹنے والے ہوں۔ دوسرے معنوں میں، محبت وہاں پائی جاتی ہے جہاں نرم اور ٹوٹنے والا دل پایا جاتا ہے۔ سخت اور ظالم دل میں محبت پرورش نہیں پا سکتی۔

نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا

بہت مدت سے چرچے ہیں ترے باریک بینوں میں

63:     نمایاں ہونے سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

            نمایاں ہونے سے شاعر محبوب کا جلوہ یا اس کا سامنے آنا مراد لے رہے ہیں۔

64:     باریک بین سے کیا مراد ہے؟

باریک بین سے مراد” کسی چیز کو انتہائی باریکی سے پرکھنے، جاننے یا سمجھنے والا”۔ اس کے معنی “کسی شعبے کا ماہر” بھی ہو سکتے ہیں۔

65:     کس کے چرچے ہیں؟

            مخاطب/محبوب اور اس کے جمال کے چرچے ہیں۔

66:     اس شعر کا عشق حقیقی  سے کس طرح تعلق ہے؟

اس شعر  کا عشق حقیقی سے تعلق یوں نکلتا ہے کہ شاعر اللہ تعالیٰ یا آپﷺ سے مخاطب ہو کر انھیں اپنا جمال دکھانے کی التجا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کے حسن و جمال  کی  خبر ہر نبی اور ولی نے دی ہے۔

67:     اس شعر کا حقیقی زندگی سے کس طرح تعلق ہے؟

اس شعر کا حقیقی زندگی سے اس طرح تعلق ہے کہ جو انسان حسین ہوتا ہے، اس کے چرچے ہوتے ہیں، اور لوگ اس کو دیکھنے کے تمنائی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ انسان کسی کا محبوب ہو تو یہ طلب مزید شدید ہو جاتی ہے۔

68:     شاعر کی کیا آرزو ہے؟

شاعر کی آرزو ہے کہ محبوب نمایاں ہو کر اپنا جمال دکھا دے۔

https://universalurdu.com

69:     کس کے چرچے ہیں؟

            محبوب کے جمال اور حسن کے چرچے ہیں۔

70:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر کے مطابق شاعر محبوب سے مخاطب ہیں کہ تمھارے جمال کے ہر جگہ چرچے ہیں، یہاں تک کہ وہ باریک بین بھی تمھارے حسن کے قائل ہیں جو چھوٹی سے چھوٹی خامی بھی بیان کرتے ہیں، اس لیے کبھی سب کے سامنے نمایاں ہو کر اپنا جمال دکھا دو۔

خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں  اچھا

ادب  پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

71:     شاعر دل کو کیا نصیحت کر رہے ہیں؟

شاعر دل کو نصیحت کر رہے ہیں کہ بھری محفل میں چلانا اچھا نہیں، کیوں کہ محبت کا پہلا قرینہ ادب ہے اور چلانا ادب کے تقاضے کے خلاف ہے۔

72:     شعر کے مطابق محبت کی پہلی شرط کیا ہے؟

            شاعر کے مطابق محبت کی پہلی شرط ادب ہے۔

73:     شاعر چلانے سے کیوں منع کر رہے ہیں؟

            شاعر چلانے سے اس لیے منع کر رہے ہیں کیوں کہ یہ ادب کے خلاف ہے، اور ادب ہی محبت کا پہلا قرینہ ہوتا ہے۔

74:     اس شعر میں “چلانے” کے کیا کیا معنی بن سکتے ہیں؟

            اس شعر میں چلانے سے مراد “چیخنا ، چلانا”، “اعتراض کرنا”، “شکوہ کرنا”، “بات نہ ماننا” وغیر ہ بن سکتے ہیں۔

75:     حقیقی زندگی کے تناظرمیں اس شعر کی وضاحت کریں

حقیقی زندگی کے تناظر میں اس شعر کا معنی یہ ہے کہ آپ جس سے محبت کا دعویٰ کریں، اس کے رنگ میں خود کو ڈھال لیں، قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور محبوب کے آزمانے یا بے رخی برتنے پر شکوہ و شکایت کرنے  اور چلانے کے بجائے ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

76:     غیر مسلسل غزل کی تعریف کریں

            غیر مسلسل غزل ایسی غزل کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کا معنی الگ الگ ہو۔ یعنی اس میں کوئی ربط اور تسلسل نہ ہو۔

https://universalurdu.com

برا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں تو خود بھی ہوں اقبالؔ اپنے نکتہ چینوں میں

77:     مقطع کی تعریف کریں، نیز اس کی شرائط لکھیں

مقطع عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مادہ “قطع” ہے۔ اس کے معنی “خاتمہ، انتہا، قطع کرنا، کاٹنا، ختم کرنا” وغیرہ کے ہیں۔ شعری اصطلاح کے طور پر کسی بھی غزل یا قصیدے کا ایسا آخری شعر جس میں شاعر نے اپنا تخلص بھی استعمال کیا ہو، مقطع کہلاتا ہے۔

(شرائط تعریف میں بیان کی جا چکی ہیں)

اس کی دو شرائط ہیں:

1:        غزل یا قصیدے کا آخری شعر ہو

2:         شاعر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو

نوٹ: دونوں میں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ شعر/آخری شعر کہلائے گا، مقطع نہیں کہلائے گا

 

78:     تخلص کسے کہتے ہیں؟ مقطع کی شعری مثال لکھیں

            تخلس اس مختصر نام کو  کہتے ہیں جو شاعر اپنی شاعری میں اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی علامت  ؔ ہے۔

            مثلا اقبالؔ ، میرؔ ، دردؔ ، سوزؔ ، غالبؔ ، شیفتہؔ ، مومنؔ ، آتشؔ، ناسخؔ، انیسؔ، دبیرؔ

79:     نظم اور غزل کا فرق واضح کریں

            نظم ایسی شاعری ہوتی ہے جو ایک ہی خیال کے تحت لکھی جاتی ہے۔ اس میں موضوع سے باہر نہیں جا سکتے۔

            نظم کا موضوع ہوتا ہے۔

            نظم ہئیت  رکھتی ہے، بعض اوقات یہ ترجیع بند کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔

            غزل کا ہر شعر الگ الگ یعنی جداگانہ ہوتا ہے اور پورا معنی دیتا ہے۔

            غزل بند کی صورت میں نہیں ہوتی، یہ شعر کی صورت میں اپنی  وحدت برقرار رکھتی ہے۔

            غزل کا کوئی موضوع نہیں ہوتا۔

80:     شاعر کس کو برا نہیں سمجھتے ؟

            شاعر نکتہ چینوں کو برا نہیں سمجھتے۔

81:     شاعر اپنا نکتہ چین کیوں ہے؟

شاعر اپنا نکتہ چین اس لیے ہے کیوں کہ وہ خود بھی، اپنے اندر موجود خامیوں کے متلاشی ہیں تا کہ اپنی اصلاح کر سکیں۔

https://universalurdu.com

82:     اس شعر سے کیا کیا معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں؟

اس شعر کا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ ، شاعر اپنی ذات پر اعتراض اور نکتہ چینی کرنے والوں کو برا اس لیے نہیں سمجھتے کیوں کہ وہ خود بھی اپنی ذات کی بہتری  کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ نکتہ چین، شاعر کا کام آسان کر تے ہوئے ان کی اصلاحِ ذات میں مدد کر رہے ہیں۔

دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے محبوب کو برا نہیں سمجھتا، اگر خود میری ذات یہ کام کرے گی تو میرا دل میری مخالفت کرے گا، اس طرح میں خود پر بھی نکتہ چینی کروں گا۔ (تشریح پہلے مفہوم کے مطابق رکھی جائے)

83:     کیا یہ شعر مقطع ہے؟ ثابت کریں

یہ شعر مقطع ہے کیوں کہ یہ مقطع کی دونوں شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔ یہ غزل کا آخری شعر بھی ہے اور اس میں تخلص بھی استعمال ہو رہا ہے۔

84:     اس شعر کا مفہوم لکھیں

            جواب 82

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!