غزل مرزا داغ دہلوی

غزل: داغ دہلوی

آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو

کوئی دم اور آپس میں ذرا ہونے دو

1:      شاعر آئینہ نظر  سے نہ جدا ہونے کا کیوں کہہ رہا ہے؟

شاعر کے مطابق محبوب کا حسن اتنا زیادہ ہے کہ  آئینہ بھی اسے دیکھنا چاہتا ہے، اسی وجہ سے شاعر چاہتے ہیں کہ آئینے کی خواہش پوری کرو او ر اسے اپنی نظر سے جدا نہ ہونے دو۔

دوسرے معنوں میں محبوب اتنا پیارا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر خود کو دیکھتا رہتا ہے، اسی وجہ سے شاعر کہہ رہے ہیں کہ خود کو کچھ دیر اور دیکھ لو، آئینے کے سامنے سے مت ہٹو۔

2:      دوسرے مصرعے کی وضاحت کریں؟

            اس مصرعے کا معنی یہ ہےکہ کچھ دیر اور خود کو دیکھتے رہو، دوسرے معنوں میں آئینے کو اپنا نظارا کرنے دو۔

حوالہ کے اشعار:

؎           تھا عشق بھی طالبِ دیدار ہوا میں                                   سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں

؎           وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے                             خدا کسی کسی کو یہ کمال دیتا ہے

 

کم نگاہی میں اشارا ہے، اشارے میں حیا

یا نہ ہونے دو مجھے چین سے یا ہونے دو

3:      “اشارا،اشارے” کی صورت میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے؟

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مادے سے بنے ہوں، صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔ اس شعر میں “اشارا، اشارے” کا مادہ ایک ہی ہے، اس وجہ سے یہ صنعت اشتقاق ہے۔

4:         دوسرے مصرعہ میں موجود صنعت کی وضاحت شعری مثال سے کریں     

            دوسرے مصرعہ میں “ہونے دو، نہ ہونے دو” کی صورت میں صنعت تضاد ہے کیوں کہ یہ دونوں متضاد الفاط ہیں۔

5:         کم نگاہی میں کیسے اشارا ہے؟

شعری روایت کے مطابق اگر محبوب ترچھی نظروں سے دیکھے یا عاشق پر توجہ دے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  محبوب کو عاشق کی قدر ہے، یا اس کے لیے اچھے جذبات ہیں۔ اس شعر کے مطابق داغ ؔدہلوی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جو تم مجھے ترچھی نظروں سے دیکھتے ہو، اس میں یہ اشارا موجود ہے کہ تم میری طرف توجہ کرنے لگے ہو۔

6:         اشارے کا شاعر پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

اشارے کی وجہ سے شاعر کے دل کے جذبات بدل رہے ہیں اور وہ بے چین ہو رہا ہے۔

7:         دوسرے مصرعہ  میں شاعر کیا کہہ رہے ہیں؟

دوسرے مصرعہ میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ ترچھی نظروں سے دیکھ کر مجھے بے چین نہ کرو، یا تو بھرپور نگاہ سے دیکھ کر مجھے مکمل بے چین کر دو یا مکمل نظر انداز کر کے میری بے چینی ختم کر دو۔

حوالہ کے اشعار:

؎           میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں                              ساری مستی شراب کی سی ہے

؎           کوئی میرے دل سے پوچھے تیرِ نیم کش کو              یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

 

ہم بھی دیکھیں، تو کہاں تک نہ توجہ ہو گی

کوئی دن تذکرۂ اہلِ وفا ہونے دو

8:      شاعر کو کس بات کا یقین ہے؟

شاعر کو اس بات کا یقین ہے کہ جب اہلِ وفا میں اس کا بار بار  تذکرہ ہو گا  میری وفاداری کی خبر ایک نہ ایک دن محبوب تک ضرور پہنچے گی۔ جب محبوب کو اپنے ستم، لاپروائی اور بے توجہی کے باوجود میری وفا کا احساس ہو گا تو وہ ضرور ایک نہ ایک دن توجہ کرے گا۔

9:      تذکرۂ اہلِ وفا سے کیا مراد ہے؟

تذکرۂ اہلِ وفا سے مراد وفا دار لوگوں کا ذکر ہے، یعنی اہلِ محفل محبوب کے ستم،بے رخی کے باوجود اس سے وفا نبھانے والوں کا جو ذکر کرتے ہیں، اسے تذکرۂ اہلِ وفا کہیں گے۔

10:     شاعر کیا دیکھنے کا کہہ رہے ہیں؟

شاعر کہہ رہے ہیں کہ جب ہماری وفا کا ذکر ہر محفل میں ہو گا تو پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ محبوب کب تک اپنا سنگ دلی والا روایتی رویہ اپناتا ہے۔ ایک نہ ایک دن وہ ہماری وفا سے متاثر ہو کر اپنا رویہ ضرور تبدیل کرے گا۔

حوالہ کے اشعار:

؎           دل ہی اس کو جانتا ہے جس پہ گزرا ہے حال                         عشق کا صدمہ زبانوں سے بیاں نہیں ہوتا

؎           یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے                               اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

آنکھ مِلتے ہی کہوں خاک حقیقت دل کی

دیکھ کر جلوہ مرے ہوش بجا ہونے دو

11:    محبوب کی آنکھ سے آنکھ مِلتے ہی شاعر کی کیا کیفیت ہوئی؟

اردو شعری روایت اور انسانی نفسیات ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا ہو، اس کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اسی کیفیت کا سامنا عاشق کواس وقت کرنا پڑا جب محبوب سے سامنا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کہہ رہے ہیں” مرے ہوش بجا ہونے دو”، یعنی عاشق اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔

12:     اس شعر میں کیامنظر بیان کِیا جا رہا ہے؟

اس شعر کے مطابق شاعر/عاشق کا سامنا محبوب سے ہوتا ہے اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ محبوب سے ملاقات سے پہلے اس نے جو منصوبے بنا رکھے ہوتے ہیں، سب دھرے کےدھرے رہ جاتے ہیں۔

13:     اس شعر میں کس جلوے کا ذکر ہے؟

جلوہ کے معنی کسی کا سامنے آنا یا دیدار کرانا ہے، اس شعر میں محبوب کے عاشق کے سامنے جلوہ افروز ہونے کا ذکر ہے۔

 

تم دل آزار بنے رشکِ مسیحا کیسے

کم نہ ہونے دو مرا درد سوا ہونے دو

14:     شعر میں کس طرح صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے؟ وضاحت کریں

اس شعر میں “دل آزار”، “رشک مسیحا” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے، دل آزار کا مطلب ہے دل کو تکلیف دینے والا، جب کہ رشکِ مسیحا کا معنی، اطمینان/شفا/درد کی دوا بننے والا۔ اور دونوں الفاظ کے معنی الٹ ہیں۔ اسی طرح “ہونے دو” اور “نہ ہونے دو” کی صورت میں بھی صنعت تضاد ہے۔

15:     شاعر کو کیا حیرت ہے؟

اردو شعری روایت کے مطابق محبوب ہمیشہ ظالم و جابر اور سخت دل ہے۔ وہ کسی کے لیے شفا کا باعث نہیں۔ شاعر کو اسی وجہ سے حیرت ہے کہ وہ انسان جو اس کے لیے بے چینی اور دل کی بے قراری کا باعث ہے، وہی مسیحا کیسے بن گیا؟

16:     شاعر کیوں درد کی شفا نہیں چاہتا؟

جب کوئی انسان مسلسل درد برداشت کرتا ہے، انسانوں کے تلخ رویے اس کی زندگی کا حصہ بنتے ہیں تو رفتہ رفتہ وہ ان سب کا عادی ہو جاتا ہے، پھر اسے یہ تکلیف اتنا درد نہیں دیتی۔ اس شعر کے مطابق شاعرکی بھی یہی کیفیت ہے کہ جب محبوب   کی بے رخی، سنگ دلی اور بے التفاتی کا عادی ہو چکا ہے تو محبوب اچانک توجہ دینے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کہہ رہا ہے کہ میرا یہ درد اب کم نہ ہونے دو بل کہ اپنے ستم بڑھا کر اسے زیادہ کرو۔

حوالہ کے اشعار:  

؎           سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو                                 وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

؎           جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم                                   پر سخن تا بہ لب نہیں آتا

؎           تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے                                       ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

 

کیا نہ آئے گا اسے خوف مرے قتل کے بعد

دستِ قاتل کو ذرا دستِ دُعا ہونے دو

17:     اس شعر میں صنعت تضاد کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس شعر میں “دستِ قاتل” اور “دستِ دُعا” متضاد الفاظ ہیں۔ شعر میں متضاد الفاظ کا آنا صنعت تضاد کہلاتا ہے، اس لیے دستِ قاتل اور دستِ دعا کی صورت میں صنعتِ تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

18:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر کے مطابق شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرا محبوب جتنا ستم مجھ پر کر رہا ہے، ایک نہ ایک دن میں فوت ہو جاؤں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا محبوب اس کے بعد ضرور پچھتائے گا، یہاں دست قاتل کے دستِ دعا ہونے سے یہی مراد ہے کہ میرے قتل کے بعد وہ پچھتا کر میرے لیے دعا ضرور کرے گا، یا اپنی خطاؤں کی معافی مانگے گا۔

دوسرے معنوں میں وہ لوگوں کو محبوب کے خلاف کرنے کے بجائے کہہ رہے ہیں کہ میرا محبوب برے دل کا نہیں، ایک نہ ایک دن اسے احساس ضرور ہو گا اور وہی انسان جو آج مجھ سے بے رخی برت رہا ہے، کل کو توجہ دے گا۔

 

حوالہ کے اشعار:

؎           کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ             ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

؎           ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن                     خاک ہو جائیں گے تم کو خبر ہونے تک

؎           قتلِ عاشق کسی معشوق سے دور نہ تھا                    پر تیرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

 

جب سنا داغؔ کوئی دم میں فنا ہوتا ہے

اس ستم گر نے اشارے سے کہا: ہونے دو

19:     داغ کا یہ شعر مقطع ہے۔ مقطع کی تعریف کریں اور ایک مثال دیں

مقطع کسی بھی غزل کا قصیدے کے اس شعر کو کہتے ہیں جس میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو اور وہ غزل یا قصیدے کا آخری شعر ہو۔

            ؎           کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ                       جہاں میں تم آئے تھے،کیا کر چلے

20:     اس شعر کے مطابق شاعر کس حال میں ہے؟

            اس شعر کے مطابق شاعر کا آخری وقت آ چکا ہے اور  وہ فنا ہونے، یعنی اپنی موت کے قریب ہے۔

21:     اس شعر سے محبوب کا کیا رویہ سامنے آتا ہے؟

اس شعر کے مطابق محبوب انتہائی سنگ دل ہے۔ اسے کسی کی زندگی اور موت سے فرق نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسے معلوم ہوا کہ داغؔ فنا ہونے کے قریب ہے تو اس نے دعا یا دلاسہ دینے کے بجائے انتہائی بے رخی سے کہہ دیا، ہونے دو۔

22:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

            جواب 21

حوالہ کے اشعار:

؎           کہا اس بت سے جب مرتا ہے مومنؔ                              کہا، میں کیا کروں مرضی خدا کی

؎           دردِ دل کتنا پسند آیا اسے                                            میں نے  جب کی آہ، اس نے کی واہ

 

شاعر کا تعارف:      داغؔ دہلوی، ذوقؔ کے شاگرد تھے۔ ان کے ہاں محاورہ، عشق کی معاملہ بندی، زبان کی شوخی اور مسرت کے جذبات ہیں۔ ان کی شاعری آسان اور عام فہم ہے۔ علامہ اقبال اپنا کلام انھیں اصلاح کے لیے پیش کیا کرتے تھے اور ان کی وفات  پر ایک مرثیہ بھی لکھا۔ان کے مجموعۂ کلام میں ماہتاب داغ، گلزارِ داغ، آفتابِ داغ اور یادگارِ داغ ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!