غزل 2 مرزا غالب

غزل 2

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

1:      اس  شعر میں موجود تمام صنعتوں کی تعریف کریں اور شعری مثال دیں

اس شعر میں مندرجہ ذیل صنعتیں استعمال ہو رہی ہیں: صنعت سیاقۃ الاعداد، صنعت تکرار، صنعت ایراد المثل، صنعت اشتقاق، صنعت تضاد، مراعات النظیر

 

صنعت سیاقۃ الاعداد:           شعر میں گنتی کا آنا صنعت سیاقۃ الاعداد کہاتی ہے۔ اس شعر میں لفظ “ہزاروں” کی صورت میں صنعت سیاقۃ الاعداد استعمال ہو رہی ہے۔

            ؎           ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے                    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

            ؎           عمر دراز مانگ کے لاے تھے چار دن                                دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

صنعت تکرار:       شعر میں کسی لفظ کا دہرایا جانا صنعت تکرار کہلاتا ہے۔ اس شعر میں لفظ “نکلے” کی تکرار ہے۔

            ؎           پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے                        جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

صنعت ایراد المثل: شعر میں محاورات یا ضرب الامثال کا آنا صنعت ایراد المثل ہے، اس شعر میں “دم نکلنا” اور “ارماں نکلنا” کی صورت میں محاورات استعمال ہو رہے ہیں۔

            ؎           خوشبو  سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ                          غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

صنعت اشتقاق:     شعر میں ایسے الفاظ کا آنا جو ایک ہی مادے یا مصدر سے مشتق ہوں، صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔اس شعر میں “خواہشیں، خواہش” کی صورت میں صنعت اشتقاق ہے۔

            ؎           مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے                     کہ جن کو ڈوبنا    ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں  میں

صنعت تضاد:         شعر میں ایسے الفاظ کا آنا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں،  صنعت تضاد کہلاتی ہے۔ اس شعر میں “بہت ” اور “کم” کی صورت میں صنعت تضاد ہے۔

            ؎           پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے            جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

صنعت مراعات النظیر:          شعر میں ایسی اشیا کا ذکر کرنا یا ایسے الفاط لانا جن مین کوئی نسبت ہو، صنعت مراعات النظیر  کہلائے گی۔ اس شعر میں “خواہش،ارمان،خواہش پہ دم نکلنا” کی صورت میں  میں مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

؎           پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے                        جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

؎           خوشبو  سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ              غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

2:      شاعر کی خواہشوں کی کیا کیفیت ہے؟

            شاعر کے مطابق اس کی خواہشات کی یہ کیفیت ہے کہ ہر خواہش پر اس کا دم نکلتا ہے، یعنی اس کی خواہش کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہر حال میں  یہ خواہش پوری ہو۔

3:      اس شعر میں مرزا غالبؔ کس بات کا اقرار کر رہے ہیں؟

            اس شعر میں مرزا غالبؔ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ ان کی ہزاروں خواہشات پوری ہوئی ہیں۔ یوں وہ صرف خواہشات کے نامکمل رہنے پر شکوہ کرنے کے بجائے پہلے تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کی لا تعداد خواہشات پوری ہو چکی ہیں۔

4:      شاعر زندگی کی کس حقیقت کی طرف اشارا کر رہے ہیں؟

            شاعر انسان کی اس نفسیات کی طرف اشارا  کر رہے ہیں کہ انسان کبھی بھی زندگی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی ہزاروں خواہشات بھی پوری ہو جائیں تو بھی وہ مزید کی طلب میں رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ  فلاں کام مکمل نہیں ہوا، کاش اس طرح ہو جاتا۔ اس طرح شاعر انسان اور اس کی زندگی کی ایک حقیقت بیان کر رہے ہیں۔

 

            حوالہ کی حدیث:

ابو نعیم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبد الرحمن بن سلیمان بن غسیل نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل بن سعد نے بیان کیاانہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو مکہ مکرمہ میں منبرپر یہ کہتے سنا۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اے لوگو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر انسان کو ایک وادی سونا بھرکے دے دیا جائے تو وہ دوسری کاخواہش مند رہے گا اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کا خوہش مند رہے گااور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اوراللہ پاک اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔ (البخاری: حدیث 6438)

حوالہ کے اشعار:

            ؎           ابنِ مریم ہوا کرے کوئی                                مرے دکھ کی دوا کرے کوئی

            ؎           نہ پوری ہوئی  ہیں امیدیں نہ ہوں گی                    یونہی ساری عمر گزر جائے گی

 

ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اس کی گردن پر؟

وہ خوں جو چشمِ تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے

 

5:      اس شعر میں صنعت مراعات النظیر کس طرح  استعمال ہو رہی ہے؟

            اس شعر میں الفاظ “قاتل،گردن،خوں” کے الفاظ کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

6:      قاتل کو کیوں نہیں ڈرنا چاہیے؟

7:      شاعر کے قتل کا الزام/خون قاتل کی گردن پر کیوں نہیں ہو گا؟

شاعر کے مطابق میرے قاتل کو  میرے قتل سے نہیں ڈرنا چاہیے، کیوں کہ انسان کو غم آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ میرا محبوب اگر مجھے اسی طرح رُلاتا رہا اور میں غم سے مر گیا تو، میری موت کی وجہ تو محبوب( جس کو وہ قاتل کہہ رہے ہیں) ہو گا مگر کسی کو خبر تک نہیں ہو گی کہ شاعر کے قتل کی کیا وجہ بنی؟ اسی وجہ سے میرے قاتل کو نہیں ڈرنا چاہیے کیوں کہ غم سے مرنے پر شاعر کے قتل کا الزم قاتل پر نہیں لگے گا۔

8:       شعر کا مفہوم تحریر کریں

            جواب 7

حوالہ کے اشعار:

            ؎           کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ            ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے                            ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

 

 

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو  ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

 

9:      صنعت تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا واقعہ بیان کریں؟

صنعت تلمیح سے مراد کسی تاریخی یا مذہبی واقعہ کو چند الفاظ کی صورت میں شعر میں اس طرح استعمال کرنا کہ پورا واقعہ ذہن میں آ جائے، صنعت تلمیح کہلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمیں پر اپنا خلیفہ بنانے لگا ہوں جس پر فرشتوں نے اعتراض کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں، تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے جو کہ جن تھا۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام جنت میں رہنے لگے۔ ابلیس نے منصوبہ بندی کر کے حضرت آدم علیہ السلام کو وہ پھل کھلا دیا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا۔ اس خطا پر حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا۔

10:     شاعر اپنا تقابل کس سے، کس طرح کر رہے ہیں؟

شاعر اپنا تقابل حضرت آدم علیہ السلام سے کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا سنتے آئے ہیں، وہ بھی بے آبرو ہونے کی قِسم تھی مگر جس انداز میں تیرے کوچے سے ہمیں نکالا گیا ہے،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

11:    شاعر کے ساتھ محبوب کے کوچہ/گلی میں جانے پر کیا ہوا؟

            شاعر کے کوچۂ محبوب میں جانے پر اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

 

حوالہ کے اشعار:

؎           بہت آرزو تھی گلی کی  تیری                                         سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

؎           مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں بیچ  آئیں             دل والو! کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

 

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طُرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

12:     اس شعر میں موجود صنعتوں کی نشان دہی کریں

اس شعر میں ‘پیچ و خم نکلنا’ کی صورت میں صنعت ‘ایراد المثل’ جب کہ ‘پیچ و خم’ کے دہرائے جانے کی صورت میں ‘صنعت  تکرار’ استعمال ہو رہی ہے۔

13:     قامت کی درازی کا بھرم کیسے کھلے گا؟

            اگر طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے تو قامت کی درازی کابھرم کھل جائے گا۔

14:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اگر محبوب کے طرہ کا پیچ و خم یعنی اس کے بل نکال دئے جائیں تو لوگوں پر یہ راز آشکار ہو جائے گا کہ محبوب کا قد کتنا دراز ہے۔ اس شعر سے دو مفہوم سامنے آتے ہیں، اول یہ کہ اگر محبوب کے طرہ کا پیچ و خم نکلے تو اس کے قد کا چھوٹا ہونا سامنے آئے گا، اس تناظر میں یہ شعر طنز اور عاشق کے محبوب کی خامیوں سے واقف ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس سے یہ مراد ہے کہ محبوب کے طرہ کا پیچ و خم نکلنے پر اس کے قد کی درازی مزید عیاں ہو جائے گی۔ اس صورت میں شاعر اپنے محبوب کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

حوالہ کے اشعار:

؎           نگاہِ برق نہیں، چہرہِ آفتاب نہیں                                    وہ آدمی ہے مگر  دیکھنے کی تاب نہیں

؎           میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں                                          ساری مستی شراب کی سی ہے

؎           نہ وہ آواز میں رس، نہ وہ لہجے میں کھنک                            کیسے کلیوں کو ترا طرزِ تکلم آئے

؎           لب کھولتی کلیوں کا قرینہ تری گفتار                                 باتوں کی مہک اوڑھتے رہنا مرا قصہ

 

ہوئی جن سے توقع خستگی میں داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغِ  ستم نکلے

15:     کیا شاعر کی توقع  پوری ہوئی؟

16:     شاعر کی توقع کس طرح پوری نہیں ہوئی؟

17:     شاعر جن کو اپنا غم بیان کرنے گئے تھے، ان کی کیا حالت تھی؟

شاعر جب اپنا غم سنانے گئے تو ان کے ذہن میں تھا کہ غم سننے والا اسے سن کر میرے حوصلے اور ہمت کی داد دے گا۔ مگر جب شاعر اپنی داستانِ غم سنانے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ انسان شاعر سے کہیں زیادہ دکھی اور غمگین ہے، اس نے شاعر سے بھی زیادہ درد و غم کا سامنا کیا ہے۔انسانی نفسیات ہے کہ ہر انسان اپنے غم کو سب سے بڑا غم تصور کرتا ہے اور خود کو سب سے دکھی سمجھتا ہے، اکثر کہتا ہے کہ تم کیا جانو مجھ پر کیا بِیتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنے اپنے تناظر میں ہرانسان کا غم دوسرے  انسان کے غم  سے بڑا  ہے۔ اگر ایک انسان کا غم دوسرے کو دے دیا جائے تو شاید وہ غم کی شدت سے مر جائے۔

18:     اس شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور ایک شعر ی مثال تحریر کریں

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مادے سے بنے ہوں، صنعت اشتقاق کہلاتا ہے۔ اس شعر میں “خستہ، خستگی” کی صورت میں صنعت اشتقاق استعمال ہو رہی ہے۔

19:     خستگی کی داد پانے سے کیا مراد ہے؟

            خستگی کی داد پانے سے یہ مراد ہے کہ کسی انسان کا ہمارے غم اور درد سن کر ہماری  ہمت و حوصلے اور برداشت کی تعریف کرنا۔

            (اس شعر میں شاعر اپنےلیے داد کا طلب گار ہے۔)

حوالہ کے اشعار:

            ؎           دل تو میرا  اداس ہے ناصرؔ                                           شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

            ؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے                                        ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

            ؎           ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے                    بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

 

محبت میں نہیں ہے فرق مرنے اور جینے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

20:     محبت میں مرنے اور جینے کا فرق کیوں نہیں؟

            (1):محبت میں مرنے اور جینے کا فرق اس لیے نہیں کیوں کہ جس انسان پر دم نکلتا ہے اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں۔

(2): محبت میں مرنے اور جینے کا فرق اس  لیے نہیں کیوں کہ جو انسان ہماری خوشی اور مسرت کا باعث ہوتا ہے اسی کی بے رخی یا جدائی انسان کو تمام دنیا سے لا تعلق بھی کر سکتی ہے اور اسے دکھی اور زندگی سے بیزار کر سکتی ہے۔

21:     پہلے مصرعے میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے؟

            پہلے مصرعے میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہےکیوں کہ مرنا اور جینا متضاد الفاظ ہیں۔

22:     اس شعر میں محبوب کو کافر کیوں کہا جا رہا ہے؟

کافر کے لفظی معنی ‘انکار کرنے والا’ کے ہیں۔ اس شعر میں شاعر محبوب کو کافر کہہ رہا ہے کیوں کہ محبوب عاشق کی ہر وفا اور کوشش کو رد کرتے ہوئے روایتی جبر و جفا اپناتا ہے۔

23:     اس شعر میں استعارا کس طرح استعمال ہو رہا ہے؟ نیز شعر میں موجود ارکانِ استعارا کی وضاحت  کریں

اس شعر میں لفظ کافر کی صورت میں استعارا استعمال ہو رہا ہے۔ محبوب کی سنگ دلی اور بے اعتنائی  کی وجہ سے شاعر اسے کافر کہہ رہا ہے۔

            مستعار لہ:            محبوب

            مستعار منہ:          کافر

            وجہ جامع:            محبوب کا  شاعر کی وفا کو تسلیم نہ کرنا

حوالہ کے اشعار:

            ؎           یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے                   اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

            ؎           مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی                          موت آتی ہے پر نہیں آتی

 

کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

24:     پہلے مصرعے میں کیا کہا جا رہا ہے؟

پہلے مصرعے میں شاعر تقابل کرتے ہوئے کہہ رہےہیں کہ کہاں مسجد میں اسلام کی تبلیغ کرنے اور شراب  سے منع کرنے والا واعظ اور کہاں مے خانہ، گویا ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ناممکن بات ہے۔

25:     مے خانے سے نکلتے وقت شاعر کے ساتھ کیا ہوا؟

شاعر کہہ رہے ہیں کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے مگر اتنا معلوم ہے کہ کل جب میں مے خانے سے نکل رہا تھا تو واعظ مے خانے میں جا رہا تھا۔

 26:     اس شعر میں صنعت تضاد کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس شعر میں ‘جاتا’ اور ‘نکلے’ کی صورت میں صنعت تضاد ہے کیوں کہ یہاں جاتا مے خانے میں داخل ہونے اور نکلے سے مراد مے خانے سے نکلنا ہے۔

27:     اس شعر میں صنعت تکرار کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

            اس شعر میں لفظ “کہاں” کی صورت میں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے۔

28:     اس شعر سے کیا کیا معنی نکلتے ہیں؟

اس شعر سے پہلا معنی یہ نکلتا ہے کہ انسان کہتا کچھ ہے، کرتا کچھ ہے، یوں ہمارے معاشرے میں موجود نفاق کی نشان دہی کی گئی ہے۔

دوسرا معنی یہ نکلتا ہے کہ انسان باتیں تو بہت اچھی کرتا ہے، اسے حلال و حرام چیزوں کا علم بھی ہےاور ان کی تبلیغ بھی کرتا ہے مگر اس کا عمل اس کے برعکس ہے۔

تیسرا معنی یہ نکلتا ہے کہ مذہبی طبقہ دین کا علم بھی رکھتا ہے اور اس کے حوالے سے وعظ و نصیحت بھی کرتا ہے مگر اس کا عمل بھی اس کی تعلیمات اور وعظ کے برعکس ہے۔

حوالہ کے اشعار:

            ؎           یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو                        کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

            ؎           دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک ہی دکھا دو                   وہ شخص جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو

            ؎           رند بھی پارسا سے ڈرتے ہیں                            بادہ کش ہیں، ریا سے ڈرتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!