غزل: غلام ہمدانی مصحفی

شیخ غلام ہمدانی مصحفی

 

 

ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا

گل کو شکستِ رنگ کا پیغام آ گیا

1:      محبوب کے چمن میں داخل ہونے پر کیا ہوا؟

            محبوب کے چمن میں داخل ہونے پر گل کو شکست کا پیغام آ گیا۔ یعنی محبوب کے حسن و نازکی کے سامنے پھول بھی ماند تھا۔

2:      گل کو شکستِ رنگ کا پیغام ملنے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

گل کو شکستِ رنگ کا پیغام ملنے سے شاعر کی یہ مراد ہے کہ اس کے محبوب کے حسن کے سامنے پھول کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا ہے، یا اس کے حسن کی بھی حیثیت نہیں۔

3:      تشبیہ  اور ارکانِ تشبیہ کی تعریف کریں؟

تشبیہ کے لفظی معنی ہیں کسی ایک چیز کو کسی دوسری چیز کی مانند قرار دینا ،لیکن اصطلاح میں علم ِبیان  کی رو  سے جب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند قرار دیا جائے ،تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔

            مشبہ:                 جس شخص یا چیز کو تشبیہ دی جائے۔

            مشبہ بہ:              جس چیز سے تشبیہ دی جا رہی ہو

            حرف تشبیہ:          وہ حروف جو تشبیہ دینے کے لیے استعمال کیے جائیں

            وجہ تشبیہ:            مشبہ اور مشبہ بہ میں مشترکہ صفت

            غرض تشبیہ:         وہ مقصد جس کے لیے  تشبیہ دی جا رہی ہو۔

 

4:      اس شعر میں موجود تشبیہ کی وضاحت کریں، نیز ارکانِ تشبیہ تحریر کریں

            اس شعر میں شاعر محبوب کے حسن اور نازکی کو پھول سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

            مشبہ:                 محبوب   

مشبہ بہ:              گل

حرفِ تشبیہ:                     ۔۔۔

وجہ تشبیہ:            محبوب کا پھول کی طرح نازک اور حسین ہونا         

غرض تشبیہ:          محبوب کی نازکی اور خوب صورت واضح کرنا

حوالہ کے اشعار:

؎           کون اس باغ سے اے بادِ صبا جاتا ہے                  رنگ رخسار سے پھولوں کا اڑا جاتا ہے

؎           ناز ہے گُل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ            اس نے دیکھے  نہیں ناز و نزاکت والے

؎           نازکی اس کے لب کی کیا کہیے                            پنکھڑی اک گلاب کی سی  ہے

 

اٹھا جو صبحِ خواب سے وہ مست پر خمار

خورشید کف کے بیچ لیے جام آ گیا

5:      محبوب کے بیدار ہونے پر کیا ہوا؟

6:      شاعر محبوب کی بیداری کا منظر کس طرح بیان کر رہے ہیں؟

            شاعر کے مطابق جب صبح کے وقت ان کا محبوب بیدار ہوا تو خورشید یعنی سورج اس کی خدمت کرنے کے لیے جام لیے آ گیا۔

7:      اس شعر میں صنعت مبالغہ کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

خورشید کا محبوب کے جاگنے کا انتظار کرنا اور اس کے جاگنے پر اس کے لیے جام لیے آنے کی صورت میں صنعت مبالغہ استعمال کی جا رہی ہے کیوں کہ سورج نہ تو کسی کا انتظار کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے لیے جام لیے آتا ہے۔

            (صنعت مبالغہ سے مراد کسی بات کو اس  حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہ حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہ ہو۔)

حوالہ کے اشعار:

            ؎           میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں                  ساری مستی شراب کی سی ہے

            ؎           تمھاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے                     شراب کا نہ سہی نیند کا اثٖر ہی سہی

 

افسوس ہے کہ ہم تو رہے مستِ خوابِ صبح

اور آفتابِ عمر لبِ بام آ گیا

            الفاظ معانی ( آفتابِ عمر: زندگی لبِ بام:  بھر جانا، مکمل ہو جانا مستِ خوابِ صبح: غفلت)

8:      شاعر کی زندگی کس حال میں گزری؟

            شاعر کےمطابق ان کی زندگی مستِ خوابِ صبح کی حالت میں گزری جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔

            پہلے معنی کے مطابق شاعر کی زندگی غفلت اور لاپروائی میں گزری۔

            دوسرے معنی کے مطابق شاعر زندگی کا اصل مقصد بھول گیا اور  سہل پسندی اور عیش و عشرت میں زندگی برباد کر دی

            تیسرے معنی کے مطابق شاعر نے اپنی جوانی  غفلت میں گزار دی، جب ہوش آیا تو زندگی اختتام کے قریب پہنچ چکی تھی۔

9:      اس شعر میں آفتابِ عمر کے لبِ بام آنے سے کیا مراد ہے؟

آفتابِ عمر سے مراد انسان کی زندگی ہے، اور اس کے لبِ بام آنے سے مراد زندگی کا اپنے انجام کے قریب پہنچنا ہے۔ یوں اس کا معنی یہ ہے کہ زندگی اپنے انجام/اختتام تک جا پہنچی ہے۔

10:     اس شعر میں انسان کی کون سی فطرت/نفسیات کی طرف اشارا ہے؟

11:    اس شعر میں زندگی کی کون سی حقیقت کو آشکار کیا جا رہا ہے؟

اس شعر میں ایک خاص انسانی نفسیات کا عنصر ملتا ہے جو کہ اس زندگی کی حقیقت بھی ہے کہ انسان اپنی آسانی کے دور اور اچھے ایام کو  غفلت اور لاپروائی میں گزار دیتا ہے۔ جب آنکھ کھلتی ہے اور ہوش آتا ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ دوسرے معنی میں جوانی کی عمر غفلت و لاپروائی میں گزرتی ہے، وقت اور  عمر  گزرنے کے بعد انسان کو ہوش آتا ہے۔

 

حوالہ کے اشعار:

؎           آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت                    اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

؎           زندگی انسان کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا                شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اڑ گیا

(آیت: ہر  نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)

 

ہے جائے رحم حال پہ یاں اُس اسیر کے

جو گرتے ہی ہوا سے تہہِ دام آگیا

            الفاظ معانی            (اسیر: قیدی، پرندہ تہہ دام آنا:          قید ہونا، پنجرے میں بند ہونا، مصیبت میں پھنس جانا)

12:     کون قابلِ رحم ہے؟

            شاعر کے مطابق وہ اسیر قابلِ رحم ہے جو ہوا سے گرتے ہی تہہ دام آ جائے۔

13:     شعر کے مفہوم بیان کریں

1:        اس شعر کا مفہوم  یہ ہے کہ وہ انسان جو ایک مصیبت سے نکلے اور دوسری میں گرفتار ہو جائے، بہت قابلِ رحم ہے۔

2:         وہ پرندہ قابلِ رحم ہے جو ہوا سے گرتے ہی کسی شکاری کے جال میں پھنس جائے۔

3:         کوئی انسان کسی کام کا آغاز کرے اور اسے مسائل کا سامنا ہو، وہ انسان قابلِ رحم ہے۔

14:     اس شعر میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے؟ وضاحت کریں

اس شعر میں اسیر، ہوا، تہہ دام آنا کا تعلق ایک ہی قبیل (یعنی ایک طرح کے)کے الفاظ سے ہے۔ اس لیے یہاں مراعات النظیراستعمال ہو رہی ہے۔

حوالہ کے اشعار:

            ؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے                            ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

            ؎           نہ تڑپنے  کی اجازت نہ فریاد کی ہے                      گھٹ کر مر جاؤں یہ مرضی صیاد کی ہے

؎           اب تو گھبرا کے  یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے            مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

 

سمجھو خدا کے واسطے پیارے برا نہیں

دو دن، اگر کسی کے کوئی کام آ گیا

15:     شاعر کیا سمجھنے کا کہہ رہے ہیں؟

            شاعر یہ بات سمجھنے کا کہہ رہے ہیں کہ اگر انسان دوسرے انسان کے کام آ جائے تو اس میں کچھ برا نہیں۔

16:     صنعت سیاق الاعداد کی تعریف کریں اور شعری مثال تحریر کریں

شعر میں گنتی /اعداد کا آنا صنعت سیاق الاعداد کہلاتا ہے۔ دیے گئے شعر میں لفظ “دو” کی صورت میں صنعت سیاق الاعداد استعمال ہو  رہی ہے۔

؎           ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے                    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

17:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر میں شاعر نصیحت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے کام آجائے اور اس کی مدد کردے،یا اس کا مسئلہ حل کر دے، تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔گویا یہاں شاعر انسان کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے رہے ہیں۔

حوالہ کے اشعار:

؎           اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں            ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

؎           کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر                               خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر

 

کر قطع کب گیا ترے کوچے سے مصحفیؔ؟

گر صبح کو گیا، وہیں پھر شام آ گیا

18:     اس شعر میں صنعت تضاد کس طرح استعمال ہوئی ہے؟ نیز صنعت  تضاد کا ایک شعر تحریر کریں

            اس شعر میں “صبح، شام” متضاد الفاظ ہیں، لہذا  یہاں “صبح،شام” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

            ؎           اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا               نقشِ کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا

19:     کیا یہ شعر مقطع ہے؟  اپنے جواب کی وضاحت کریں

مصحفیؔ  کی غزل کا یہ شعر مقطع ہے کیوں کہ مقطع کے لیے دو شرائط ہیں، غزل کا اخری شعر ہو اور اس میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو۔  یہ شعر دونوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔

20:     محبوب کے کوچے سے قطع کرنے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

محبوب کے کوچے سے قطع کرنے سے یہ مراد ہے کہ عاشق نے اس سے بے وفائی کی ہے یا اس کی گلی چھوڑ دی ہے، اس کے علاوہ اس سے یہ معنی بھی لیا جا سکتا ہے کہ عاشق محبوب سے تعلقات ختم کر چکا ہے یا وہاں سے جا چکا ہے۔

21:     شاعر محبوب کی کیا غلط فہمی دور کر رہا ہے؟ / شاعر کن الفاظ میں اپنے تعلق کی وضاحت کر رہا ہے؟

شاعر کہہ رہا ہے کہ میں چند دن اگر کوچۂ محبوب کی طرف نہیں آیا تو ا س کا معنی یہ نہیں کہ میں نے قطع تعلقی کر لی ہے بل کہ کسی مصروفیت یا مجبوری کی وجہ سے نہیں آیا۔ میری مثال ایسی ہے جیسے اگر صبح کو کہیں گیا بھی تو شام کو واپس آؤں گا۔

22:     دوسرے مصرعے کا مفہوم تحریر کریں

دوسرے مصرعے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں صبح کے وقت کسی وجہ سے چلا بھی گیا تو شام کو واپسی وہیں اپنی اصل کی طرف ہو گی، یعنی وفا کےاس تقاضے کا ذکر ہے کہ آخر میں وہیں آؤں گا جس سے وفا کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

حوالہ کے اشعار:

؎           وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا                    بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

؎           ہزار بار کیا ترک دوستی کا خیال                          مگر فراز پشیماں ہزار بار ہوئے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!