قطعات

نظم :قطعات

کبھی تو ان کی حسینوں سے شکل ملتی ہے                       کبھی پناہ گزینوں سے شکل ملتی ہے

خدا کی شان ہے، وہ ہیں مرے وطن کے جواں               کہ جن کی پردہ نشینوں سے شکل ملتی ہے

1:      جوانوں کی شکل کس کس سے ملتی ہے؟

شاعر کے مطابق وطن کے نوجوانوں کی شکل کبھی تو حسین لڑکیوں سے ملتی ہےیعنی وہ لڑکیوں کی طرح میک اپ، لمبے بال رکھنا اور دیگر کام کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی اپنے حلیے یا فیشن کی وجہ سے ایسے نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ کہیں دور دراز سے پناہ لینےآئے ہوں، اس وجہ سے ان کا حلیہ اور لباس خراب ہو چکا ہو۔ یوں معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وطن کا یہ مستقبل لڑکا ہے یا لڑکی۔

2:      حسینوں سے شکل ملنے سے کیا مراد ہے؟

حسینوں سے شکل ملنے سے یہ مرا دہے کہ نوجون لڑکے، لڑکیوں کی طرح فیشن کرتے، رنگ برنگے لباس پہنتے نظر آتے ہیں۔ ان کے حلیے سے کبھی کبھی دیکھنے والے کو شک ہونے لگتا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔

3:      خدا کی شان کون سے جواں ہیں اور کیوں؟

وطن کے یہ نوجوان ہی خدا کی شان ہیں کہ ان کی ظاہری حالت سے انسان کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ لڑکا ہے یا لڑکی، یوں ان کا حلیہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا  ہے کہ کوئی حسینہ جا رہی ہے مگر وہ لڑکا ہوتا ہے۔

4:      پناہ گزینوں سے شکل ملنے سے کیا مراد ہے؟

پناہ گزین سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو کسی آفت زدہ علاقے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے طویل سفر طے کر کے آیا ہو۔ اس کا پھٹا لباس، بکھرے بال اور برا حلیہ اس چیز کا گواہ ہوتا ہے۔ یہاں پناہ گزین سے مراد اسی قسم کے نوجوان ہیں جن کا حلیہ  اپنی لاپروائی یا کسی فیشن کی وجہ سے کسی پناہ گزین سے ملتا ہو۔

حوالہ کے اشعار:

؎                       تہذیبِ مغربی ہے مدنظر                                وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

 

کیا بتائیں آپ کو کیا ہے ہمارا ہسپتال                           انتظام ایسا کہ دل کی کلی کھل جائے ہے

حادثاتِ اتفاقی کا بھی ہے اک ڈاکٹر                          اتفاقی طور پر مل جائے، تو مل جائے

5:      “دل کی کلی کھل جائے” کون سی صنعت ہے؟ تعریف و مثال دیں

شعر میں محاورہ یا ضرب الامثال کا استعمال کرنا صنعت ایراد المثل کہلاتا ہے۔ اس بند میں ‘دل کی کلی کھل اٹھنا’ کی صورت میں صنعت ایراد المثل ملتی ہے۔

6:      حادثات اتفاقی کے ڈاکٹر کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے؟

ان اشعار میں شاعر کی حادثات اتفاقی سے مراد ایمرجنسی کا شعبہ ہے۔ انھوں نے یہاں حادثات اتفاقی اور اتفاقی کی تجنیس کا خوب صورت استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتال/اسپتال کا وہ شعبہ جو سب سے اہم ترین اور ایمرجنسی کا حامل ہے، وہاں پر بھی اگر اتفاقی طور پر ڈاکٹر مل جائے تو مل جائے ورنہ وہاں بھی ڈاکٹر نہیں پائے جاتے، باقی شعبوں میں ڈاکٹر کا ہونا پھر دور کی بات ہے۔

7:      یہاں لفظ “اتفاقی” الگ الگ معنوں میں استعمال ہو رہا ہے، دونوں معانی کی وضاحت کریں

اتفاقی کا لفظ “حادثاتِ اتفاقی” کے مرکب کی صورت میں ایمرجنسی حادثات کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈاکٹر کے اتفاقی طور پر ملنے کی صورت میں اس کا معنی یہ ہے کہ اسپتال کے اتنے اہم اور ضروری شعبے میں بھی کبھی کبھار ہی وقت پر ڈاکٹر دستیاب ہوتا ہے۔

8:      دوسرے مصرعے کی وضاحت کریں

اس مصرعے سے شاعر کی یہ مراد ہے کہ  ہمارے اسپتالوں کا انتظام اتنا برا ہے کہ شعبہ حادثات جہاں ہر وقت ڈاکٹر کا دستیاب ہونا ضروری ہے وہاں ڈاکٹر موجود ہوتا ہی نہیں۔ دل کی کلی کھل اٹھنا کا معنی ہے بہت زیادہ خوشی ملنا، لہٰذا اگر کسی مریض کو اتفاق سے وہاں ڈاکٹر مل جائے تو یہ اس کی خوش قسمتی کہی جا سکتی ہے۔

9:      الفاظ “اتفاقی” کی صورت میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور مثال لکھیں

شعر میں ایسے الفاظ کا آنا جو بولنے،لکھنے اور اعراب میں ایک جیسے ہوں مگر معنی میں جدا ہوں، صنعت تجنیس تام کہلاتے ہیں۔ اس شعر میں الفاظ اتفاقی کا پہلا معنی شعبہ حادثات کے لیے جب کہ دوسرے اتفاقی سے مراد ڈاکٹر کا اتفاقا مل جانا مراد ہے۔

؎                       سب سہیں گے ہم، اگر لاکھ برائی ہو گی                            پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی

؎                        چمن میں کس نے الٰہی نگاہ ڈالی آج                                  جو کِھل جاتی ہے گل کی ہر ڈالی آج

10:     کیا آپ شاعر کے بیان کردہ مسئلے سے متفق ہیں؟ دلائل سے وضاحت دیں

میں شاعر کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہوں کیوں کہ ہمارے اسپتالوں خاص کر سرکاری اسپتالوں میں  بالکل یہ حالات ہیں، پنجاب کے اسپتال دیکھ لیں یا سندھ کے، حکومت اس سلسلے میں مکمل لاپروا نظر آتی ہے لہٰذا میں شاعر سے مکمل اتفاق کرتا/کرتی ہوں۔              یا

مجھے شاعر کی اس بات سے اتفاق نہیں کیوں کہ ہمارے اسپتالوں کا انتظام  بہت اچھا ہو چکا ہے۔ شعبہ حادثات کیا، باقی ہر شعبے کے اسپتال کام کر رہے ہیں۔ اگر کہیں ڈاکٹر لاپروا ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہو رہا ہے۔

 

اگر کوچوں میں بھنگی رات کو جاروب کش پاؤ                  تو جانو یہ بھی ہے اک شانِ بیداری کمیٹی کی

غلاظت جس سڑک پر جابجا بکھری ہوئی دیکھو                 تو سمجھو اس طرف سے گزری ہے لاری کمیٹی کی

 

11:    کمیٹی کی شان بیداری  کی نشانی کیا ہے؟

کمیٹی کی شانِ بیداری کی علامت یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیں سڑک پر بھنگی قسم کے جاروب کش یعنی صفائی کرنے والے نظر آئیں تو سمجھ جائیں کہ میونسپل کمیٹی جاگ رہی ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔

12:     کمیٹی کی لاری گزرنے کی کیا نشانی ہے؟

کمیٹی کی لاری یعنی گندگی اٹھانے والی گاڑی کی بری حالت کا نقشہ شاعر یوں کھینچتے ہیں کہ اگر کہیں سڑک پر گندگی بکھری نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ یہاں سے کمیٹی کی گاڑی گزری ہے اور اس میں سے گندگی گر کر گواہی دے رہی ہے کہ یہاں سے  کمیٹی کی گاڑی گزری ہے۔

13:     سڑک پر غلاظت کیوں بکھری ہو گی؟

سڑک پر غلاظت اس لیے بکھری ہوئی ہے کیوں کہ وہاں سے کمیٹی کی گاڑی گزری ہے اور اس کی بری حالت کی وجہ سے اس میں سے گندگی گر کر سڑک پر بکھر چکی ہے۔

14:     پہلے مصرعے کی وضاحت کریں

جواب نمبر 11

 

محتسب سے کہوں تو  کیا جا کر                                میری مانند وہ بھی روتا ہے

پہلے ہوتا تھا دودھ میں پانی                                  آج پانی میں دودھ ہوتا ہے

 

15:     محتسب کیوں روتا ہے؟

محتسب اس لیے روتا ہے کہ پہلے تو گوالے دودھ میں کم پانی ڈالتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے دودھ میں پانی ڈالا گیا ہے۔ مگر اب دودھ میں پانی کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ پانی میں دودھ ملا کر پانی کی کوالٹی اچھی کی گئی ہے۔ اس مسئلے کا حل نہ پا کر محتسب بھی اپنی بے بسی پر روتا ہے۔

16:     شاعر کو کس پریشانی/مسئلے  کا سامنا  ہے؟

شاعر کو دودھ کے پتلا ہونے کا سامنا ہے کہ دودھ میں اب پانی کی مقدار اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ لگتا ہے کہ پانی میں تھوڑا سا دودھ ڈالا گیا ہے۔

17:     “دودھ میں پانی، پانی میں دودھ” کون سی صنعت کی علامت ہے؟

کسی شعر میں الفاظ کی ترتیب بدل کر ان سے حُسن پیدا کرنا صنعت عکس کہلاتی ہے۔ یہاں “دودھ میں پانی” اور “پانی میں دودھ” کی صورت میں صنعت عکس استعمال کی گئی ہے۔

18:     دودھ میں پانی، اور پانی میں دودھ ہونے سے شاعر کیا معانی لے رہا ہے؟

دودھ میں پانی سے مراد یہ ہے کہ کہ پہلے تو گوالے دودھ میں کم پانی ڈالتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے دودھ میں پانی ڈالا گیا ہے۔ جب کہ پانی میں دودھ سے مراد یہ ہے کہ اب دودھ میں پانی کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ پانی میں دودھ ملا کر پانی کی کوالٹی اچھی کی گئی ہے۔

19:     قطعہ کی تعریف کریں

قطعہ ایسی مختصر نظم کو کہتے ہیں جو کم از کم چار مصرعوں (دو اشعار) پر مشتمل ہوتی ہے اور اس میں بات مکمل کی جاتی ہے۔

 

کالے چشمے بھی ایک نعمت ہیں                     دھوپ میں خوب کام دیتے ہیں

جو نگاہیں ملا نہیں سکتے                             دن، رات ان سے کام لیتے ہیں

 

20:     کالے چشمے کیسے ایک نعمت ہیں؟

            کالے چشمے اس لیے ایک نعمت ہیں کیوں کہ اول تو وہ آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کے کام آتے ہیں اور دوسرا اس انسان کے لیے مددگار ہیں جن کی نیت میں کھوٹ ہو یا کوئی  غلط کام کرنے کے بعد نگاہیں چرا رہے ہوں۔ ان چشموں کی مدد سے معلوم نہیں ہو پاتا کہ انسان کدھر دیکھ رہا ہے، وہ آنکھیں چرا رہا ہے یا نہیں۔

21:     نگاہیں نہ ملانے سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

نگاہیں نہ ملانے سے مراد نگاہیں چرانا ہے، چاہے کسی خطا کے بعد شرمندگی کی صورت میں ہوں یا کسی کو دھوکہ دینے کے لیے۔ چوں کہ نگاہوں سے انسان کی کیفیت ،اس کا سچا یا جھوٹا ہونا پکڑا جا سکتا ہے اس لیے کالے چشمے نگاہیں چھپانے کے کام آتے ہیں۔ گویا انسان وہاں جا کر کالے چشمے پہن لے جہاں اسے معلوم ہو کہ شرمندہ ہونا پڑے گا۔

22:     دوسرے شعر میں استعمال ہونے والی صنعت کی تعریف کریں اور مثال دیں

            دوسرے شعر میں “دن، رات” کی صورت میں متضاد الفاظ کا استعمال ہوا ہے لہذا یہاں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

؎                                   صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے                              عمر یونہی تمام ہوتی ہے

23: مراعات النظیر: چشمہ، نگاہ، دھوپ، دن

شعر میں ایک لفظ کی مناسبت سے باقی الفاظ اس طرح استعمال کرنا کہ ان میں تضاد نہ ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتی ہے۔

شعر میں مختلف قسم کے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن میں باہم کوئی نسبت ہو، یہ نسبت تضاد کی نہ ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتی ہے۔

 

 

20:     مرکزی خیالات:

قطعہ1:  اس قطعہ میں شاعر وطن کے نوجوانوں میں فیشن کے بڑھتے رجحانات اور لڑکیوں جیسی عادات اختیار کرنے پر طنز کر رہے ہیں کہ اب معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی، کیوں کہ اس نے حلیہ ہی ایسا بنایا ہوتا ہے کہ دور سے لڑکی معلوم ہوتی ہے اور قریب آنے پر لڑکا نکلتا ہے۔ تو کبھی اپنی حالت اتنی بری کی ہوتی ہے جیسے کوئی غریب دور دراز کا سفر طے کر کے آیا ہو اور اس کے کپڑے پھٹ چکے ہوں، حلیہ بالکل خراب ہو چکا ہو۔

قطعہ 2:  اس قطعہ میں شاعر ملک کے اسپتالوں کی حالتِ زار بیان کر رہے ہیں کہ ملکی اسپتالوں کا سب سے اہم شعبہ، یعنی شعبۂ حادثات جہاں ڈاکٹر کا ہر وقت دستیاب ہونا ضروری ہے، وہاں بھی ڈاکٹر نہیں ملتے۔ اگر کبھی کسی انسان کو اتفاقا وہاں ڈاکٹر مل جائے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر مل گیا ہے۔ دوسرے معنوں میں سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اپنے پرائیویٹ کلینک بنا لیے ہیں اور اپنی ڈیوٹی کے وقت بھی  وہیں پائے جاتے ہیں۔

قطعہ3:  اس قطعہ میں شاعر میونسپل کمیٹی کی لاپروائی کی طرف اشارا کرتے ہیں کہ ان کے ملازمین بھی ایسے محسوس ہوتے ہیں جیسے بھنگی قسم کے ہوں، پھر صفائی کے حوالے سے ان کی گاڑیوں کا معیار یہ ہے کہ گندگی کو ایک جگہ سے اٹھاتے ہیں تو گاڑیاں اتنی بری حالت میں ہوتی ہیں کہ جس سڑک سے گزرتی ہیں وہاں گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اس گندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سے میونسپل کمیٹی والوں کی گاڑی گزری ہے۔ یوں وہ میونسپل کمیٹی کے مسائل اور لاپروئی کی طرف اشارا کر رہے ہیں۔

قطعہ 4:   اس قطعہ میں شاعر کالی عینک کے فوائد بتا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک کالے چشمے بہت بڑی نعمت ہیں کیوں کہ یہ آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کے کام آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان لوگوں کے کام بھی آتے ہیں جو اپنے برے کاموں ،لوگوں کو دھوکہ وغیرہ دینے کے بعد ان کا سامنا کرتے ہیں۔ کیوں کہ اگر عینک نہیں پہنی ہو گی تو آنکھوں سے اس کی  شرمندگی یا گھبراہٹ نظر آ جائے گی۔ مگر کالی عینک کی مدد سے انسان اس شرمندگی اور لوگوں کے سامنے نگاہیں جھکانے سے بچ جاتا ہے۔

(صرف مزاح کے لیے: گویا کالی عینک کالے کرتوت چھپانے کے کام آتی ہے)

قطعہ 5:  اس قطعہ میں شاعر ملک بھر میں بڑھتی ہوئی دو نمبری اور غیر معیاری چیزوں کی طرف اشارا کرتےہوئے دودھ میں پانی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تو قاضی یعنی جج بھی اس مسئلے میں لاچار نظر آتا ہے اور اشیا کا معیار انتہائی گر چکا ہے۔ پہلے تو دودھ میں تھوڑا بہت پانی ہوتا تھا مگر اب یہ مسئلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ لگتا ہے گوالے نے پانی میں تھوڑا بہت دودھ ڈالا ہوا ہے۔

شاعر کا تعارف:     اصل نام محمد لطیف تھا۔مرزا محمود سرحدی اردو مزاحیہ شاعری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے اردگرد کے ماحول کی مضحک  صورت حال کی عکاسی کی ہے۔انھوں نے اپنے قطعات میں معاشرتی مسائل کو خوب صورت انداز میں سمویا ہے۔ ان کے موضوعات میں چوری، رہزنی، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، ملاوٹ، جھوٹ اور مکر و فریب ہیں۔ اکبر الہ آبادی کے طنزیہ انداز کی پیروی کی وجہ سے “اکبرِ سرحد “کہلائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!