نظم اخلاص

نظم اخلاص

ہم دوشِ ثریا ہے مقامِ اخلاص           جو ملتا ہے، ملتا ہے غلامِ اخلاص

1:        اخلاص کا مقام کس کے ہم دوش ہے؟

اخلاص کا مقام ثریا کے ہم دوش ہے اس سے مراد آسمان  کا سب سے بلند ستارہ  ہے۔  جس طرح  باقی  ستاروں  میں ثریا  سب سے چمک دار اور بلند ہے اسی طرح دیگر اعمال میں اخلاص یا انسانی اخلاق  کا مقام ثریا  جیسا یعنی سب سے بلند ہے۔

2:      اخلاص کے ثریا  کے ہم دوش ہونے سے کیا مراد ہے؟

اخلاص کے ثریا کے ہم دوش ہونے سے یہ مراد ہے کہ کہ جس طرح آسمان پر ستاروں میں ثریا کا مقام سب سے بلند ہے اسی طرح  دنیاوی اعمال و عبادات میں میں اخلاص کی حیثیت بھی ثریا  جیسی  ہے یعنی اس کا مقام سب سے بلند ہے۔

3:      ثریا کسے کہتے ہیں؟

ثر یا آسمان کے سب سے بلند ستارے کو کہتے ہیں  اس کا دوسرا نام پروین بھی ہے ۔یہ آسمان کے روشن ستاروں کا جھرمٹ ہے۔

 

4:      اس شعر میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی  ہے؟ تعریف کریں اور مثال لکھیں

اس شعر میں لفظ “ملتا ہے” کی صورت میں صنعت تکرار  استعمال ہو رہی ہے ۔ صنعت  تکرارسے مراد شعر میں الفاظ کا دہرایا جانا ہے۔

؎           پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے                  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

5:      دوسرے مصرعے کا مفہوم بیان کریں؟

دوسرے مصرعے میں شاعر کہہ رہے ہیں  کہ انسان کو دنیا و آخرت  میں جو بھی عزت اور مرتبہ، شہرت اور بلندی ملتی  ہے ،وہ اس کے اخلاق و کردار کی  وجہ سے ملتی  ہے۔  یہاں تک کہ موت کے بعد  بھی اچھے اخلاق والے انسان کو اچھے الفاظ میں یاد رکھا جاتا ہے۔

گو فرش تا عرش سفر ہے دشوار           طے کرتی ہے بہ یک جنبش گامِ اخلاص

6:      کون سا سفر دشوار ہے؟

عرش سے فرش تک کا سفر دشوار ہے، یعنی انسان دنیا میں عزت اور مرتبہ حاصل کرنا چاہے یا آخرت میں میں یہ انتہائی دشوار کام ہے  کہ اتنی آسانی سے سے کسی عام سے انسان کو شہرت اور عزت ملے۔

7:      دشوار سفر  کیسےجلدی طے ہوتا ہے؟

دشوار سفر انسان کے اخلاص سے جلدی طے  ہوتا  ہے۔  وہ سفر اور مقام و مرتبہ  جو حاصل کرنے میں انسان کو طویل وقت لگ جاتا ہے،  اخلاق کی بدولت انسان وہی مقام جلدی حاصل کر لیتا ہے۔

 

 

8:      اس شعر میں موجود صنعت کی نشاندہی کریں؟

شعر میں متضاد الفاظ استعمال کرنا   ( شعر میں الٹ معنی کے حامل الفاظ استعمال کرنا )صنعت تضاد کہلاتا ہے ۔ یہا ں “عرش ” اور” فرش “متضاد الفاظ ہیں، اس لیے اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال ہورہی ہے۔

9:      اس شعر میں اخلاص کی کیا خوبی بتائی جا رہی ہے؟

اس شعر میں اخلاص کی یہ خوبی بتائی جارہی ہے کہ کہ انسان ناممکن ترین کام بھی اخلاص کی بدولت کر سکتا ہے۔  یہاں تک کہ وہ دنیاوی اور اخروی عزت اور مرتبہ بھی آسانی سے حاصل کر لیتا ہے۔ معجم الکبیر کی  حدیث کا مفہوم ہے کہ انسان اپنے اخلاق کی وجہ سے سے دن بھر روزے اور رات بھر قیام کرنے والوں کا درجہ پالیتا ہے۔ اس شعر  میں بھی  اخلاق کی ان ہی  خوبیوں کا ذکر ہے۔

فانی ہے ہر ایک چیز، ہر اک رسم و رواج            باقی ہے، مگر ایک دوامِ اخلاص

10:     کیا چیز فانی ہے؟

دنیاوی رتبہ، دولت و شہرت اور ہر رسم و رواج فانی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب کسی علاقے میں رسوم و رواج تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اس شعر میں اسی چیز کو بیان کیا جا رہا ہے  کہ یہ سب چیزیں ایک نہ ایک دن ختم ہونے والی ہیں۔

11:    کس چیز کو بقا حاصل ہے؟

شاعر کے مطابق دنیا کی ہر چیز ،ہر رسم و رواج ایک دن ختم ہو جائیں گے ، بقا صرف انسان کے اخلاص کو حاصل ہے کیوں کہ انسان کا کردار اور اخلاق ہی اس کی پہچان ہے۔

12:     اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال ہورہی ہے۔ اس کی تعریف کریں اور ایک مثال لکھیں

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد کہلاتی ہے۔ اس شعر میں الفاظ “فانی”اور “باقی” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

؎           تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا              یہاں مرنے کی پابندی ، وہاں جینے کی پابندی

13:     اخلاص کو دوام حاصل ہونے سے کیا مراد ہے؟

اخلاص کو دوام  حاصل ہونے سے یہ مراد ہے کہ کہ دنیا کی ہر چیز، ہر رسم و رواج، فنا ہوجاتا ہے  مگر  انسان کا اچھا اخلاق اور کردار اس کی موت کے بعد بھی زندہ رہتاہے اور لوگ اس کے کردار کی گواہی دیتے ہیں ۔ آخرت میں بھی اخلاق اور کردار کی وجہ سے سے انسان  بڑا رتبہ حاصل کر سکتا ہے۔

اسلام ہے پابندیِ اخلاص کا نام                     اور نام ہے اسلام کا نامِ اخلاص

14:     اسلام کا دوسرا نام کیا ہے؟

اسلام دین کامل ہے۔ اس میں عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کا دوسرا نام اگر دینِ  اخلاص رکھ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مسند احمد کی حدیث کے مطابق وہ انسان سب سے زیادہ اچھا  ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ اخلاق کے دیگر فضائل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اخلاق کی کتنی اہمیت ہے۔ اس لیے شاعر  کے اسلام کو دین اخلاص کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں۔

15:     اسلام کس کی پابندی کا نام ہے؟

اسلام اخلاص کی پابندی کا نام ہے۔  اس میں اخلاق و کردار کی اتنی اہمیت ہے  کہ ایک متقی، تہجدگزار  اور روزوں میں زندگی گزارنے والے انسان کے اخلاق  اگر درست نہ ہوئے تو اس کے اعمال ان لوگوں میں  تقسیم کر دیئے جائیں گے جن کے ساتھ اس نے ظلم و زیادتی کی ہو گی اور وہ خود  مفلس رہ جائے گا۔ لہٰذا  اسلام اخلاق کی پابندی کا نام ہے۔

٢: شاعر کے مطابق اسلام میں اخلاق کی پابندی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے  کہ ان کے نزدیک اسلام اخلاق کی پابندی ہی کا دوسرا نام ہے۔

16:     پہلے مصرعے کی وضاحت کریں

جواب 14

17:     اس شعر میں صنعت  تکرار کیسے استعمال ہو رہی ہے؟

صنعت تکرار سے مراد کسی شعر میں ایک لفظ  کا دہرایا جانا ہے ۔ اس شعر میں “اسلام ” ، “نام” اور “اخلاص “کی صورت میں صنعت تکرار ملتی ہے کیوں کہ انھیں دہرایا جا رہا ہے۔

 

صیاد کو ممکن ہے ہما ہاتھ لگے             پھیلائے محبت سے جو دامِ اخلاص

18:     ہما کے ہاتھ لگنے سے کیا مراد ہے؟

ہما کے ہاتھ لگنے سے مراد ہے کہ کسی ناممکن کام کا ممکن ہو جانا۔ اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں  کہ ایک شکاری کے لیے ہما جیسے پرندے کا شکار ناممکن کام ہے، مگر وہ اپنے اخلاص  کی بدولت یہ ناممکن کام بھی انجام دے سکتا ہے۔

19:     ہما سے کیا مراد ہے؟

ہما ایک فرضی پرندے کا نام ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ پرندہ جس انسان کے سر سے گزر جائے وہ لازمی بادشاہ بنتا ہے۔  کہا جاتا ہے کہ یہ ہڈیاں کھاتا ہے۔ اس  پرندے کا دوسرا نام “بادشاہ گر” ہے ، جس کے معنی ‘بادشاہ بنانے والا’ ہیں۔ اس شعر میں شاعر ہما  سے ناممکن کام مراد لے رہے ہیں۔

20:     اس شعر میں موجود صنعت تلمیح کی نشاندہی کریں؟

اس شعر میں ہما کی صورت میں صنعت تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ ہما ایک فرضی پرندے کا نام  ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ پرندہ جس انسان کے سر سے گزر جائے وہ لازمی بادشاہ بنتا ہے۔  کہا جاتا  ہے اس کا دوسرا نام “بادشاہ  گر” ہے جس کے معنی ‘بادشاہ بنانے والا’ ہیں۔

21:     محبت سے دام پھیلانے سے کیا ہوتا ہے؟

محبت سے دام پھیلانے سے ہما جیسا پرندہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے۔  یعنی انسان اگر محبت اور اخلاص سے کام لے  تو ناممکن سے ناممکن کام بھی انجام دے سکتا ہے۔  یہاں تک کہ سخت دل اور جاہل قسم کے لوگوں کے دل بھی  انسان اپنے اخلاق سے نرم کر سکتا ہے۔ یہاں  شاعر  بھی اسی چیز کا ذکر کر رہے ہیں کہ محبت اور نرمی کا جال ہر قسم کی صورت حال میں کام آتا ہے۔

22:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں؟

اس شعر کے مطابق شاعر کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی انسان محبت اور اچھے اخلاق کا جال پھیلائے تو وہ آسانی سے ہما  جیسا بندہ بھی شکار کر سکتا ہے۔ یعنی انسان اپنے اخلاق سے  نہ صرف سب کو متاثر کرسکتا ہے بل کہ دوسرے انسانوں کو بھی بدل سکتا ہے۔ اپنے کردار سے  انسان ناممکن ترین کام بھی انجام دے سکتا ہے۔

23:     اس شعر میں “ہما”، ” صیاد “، “دام” اور” ہاتھ لگنا”  کا تعلق ایک ہی قسم کی چیز یعنی شکار سے ہے۔ اس سے کون سی صنعت مراد ہے؟

شعر میں ایک ہی چیز سے تعلق رکھنے والے الفاظ اس طرح استعمال کرنا کہ ان میں تضاد کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو،  صنعت مراعات النظیر کہلاتا ہے۔ لہذا اس شعر میں “ہما”،  “صیاد”،” دام” اور “ہاتھ لگنا “کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

حاجت نہیں اخلاص کی کچھ بعدِ فنا                  قائم کرو ہستی میں نظامِ اخلاص

24:     فنا کے بعد کس کی حاجت نہیں؟

شاعر کے مطابق اگر کسی انسان کی ہستی میں اخلاص ہے تو اسے موت کے بعد کسی قسم کی حاجت باقی نہیں رہتی کیوں کہ  اس کے  کردار کی وجہ سے لوگ بھی اسے دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور اس کا نام باقی رہے گا۔ جب کہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے اخلاق اور کردار کی وجہ سے اس سے بہترین سلوک کریں گے۔

25:     شاعر اپنی ہستی میں کیا قائم کرنے کا بول رہے ہیں؟

اسلام میں انسانی رویے اور  اخلاق و کردار کی بہت اہمیت ہے۔ اخلاق کا رتبہ  بہت  بلند رکھا گیا ہے۔یہاں شاعر  بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ انسان کو اپنی ہستی یعنی  کردار و عمل میں اخلاص قائم کرنا چاہیے۔

26:     ہستی میں نظام اخلاص قائم کرنے سے کیا مراد ہے؟

اسلام میں  انسانی رویے اور  اخلاق و کردار کی بہت اہمیت ہے۔ اخلاق کا رتبہ  بہت بلند رکھا گیا ہے۔ یہاں ہستی میں اخلاص قائم کرنے سے بھی یہی مراد ہے کہ کہ انسان کا کردار اور اخلاق اتنا اچھا ہو کہ تمام لوگ اس بات کی گواہی دیں اور انسان کا اچھا کردار ہی اس کی پہچان بن جائے۔

27:     اخلاص بعد فنا کس طرح کام آتا ہے؟

شاعر کے مطابق اگر کسی انسان کی ہستی میں اخلاص ہے تو اسے موت کے بعد کسی قسم کی حاجت باقی نہیں رہتی کیوں  کہ اس کے کردار کی وجہ سے لوگ اسے دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور اس کا نام باقی رہے گا۔ جب کہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے اخلاق و کردار کی وجہ سے بہترین سلوک کریں گے۔ اس طرح انسان کا اخلاص بعدِ فنا بھی کام آتا ہے۔

28:     ہستی میں اخلاص ہونے کا کیا فائدہ ہے؟

جواب 23

شیرینیِ گفتار پہ حیرت کیسی؟             ہے گفتۂ رحمٰن کلامِ اخلاص

29:     شعر میں صنعت تعلی کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

شاعر کا کسی شعر میں اپنی شاعری کی یا اپنی ذات کی تعریف کرنا صنعت  تعلی کہلاتا ہے۔  اس شعر میں شاعر رحمان بابا اپنے کردار اور اخلاق کی تعریف کر رہے ہیں  کہ میرے اچھے کردار اور اخلاص پر تمہیں حیرت کیوں ہے؟  میرا کلام ہی اخلاص کا پیغام ہے ہے یہی وجہ ہے کہ میری گفتگو میں بھی اخلاص ہے۔ (صنعت سوال جواب بھی موجود ہے۔)

30:     رحمان بابا کیا نصیحت کر رہے ہیں؟

رحمان بابا نصیحت کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی میں اخلاق کو بنیادی اہمیت دینی چاہیے۔ آپ کی گفت گو اور قول  دونوں میں اخلاص ہونا چاہیے کیوں کہ یہ نہ صرف دنیا میں کامیاب کرتا ہے، بل کہ آخرت میں بھی اسی کی بدولت انسان کسی مشکل کا سامنا نہیں کرے گا۔

31:     شاعر کی  گفتار میں شیرینی ہونے سے کیا مراد ہے؟

شاعر کی گفتار  میں شرینی  ہونے سے یہ مراد ہے کہ شاعر کی گفت گو اخلاق بھری ہے۔ وہ کسی سے نازیبا یا ترش الفاظ میں گفتگو نہیں کرتے  بل کہ نرم لہجے  اور اچھے الفاظ کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

32:     شاعر کی گفتار میں شیرینی کیوں ہے؟

شاعر کے مطابق ان کی گفتگو میں شیرینی یعنی  میٹھا پن اس لیے ہے کیوں کہ ان کا پیغام اخلاق اور کردار کا پیغام ہے۔   اگر کوئی انسان کسی کو نیکی کی دعوت  دے مگر اس کا عمل اس کے برعکس ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔  جب کہ شاعر نہ صرف عمل کی دعوت دے رہے  ہیں بل کہ اپنے کردار سے ثابت بھی کر رہے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔

33:     رحمان بابا کا کلام کیسا ہے؟

رحمان بابا صنعت تعلی  استعمال کرتے ہوئے اپنے کلام کی تعریف کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میری گفتگو کے ساتھ ساتھ میرا کلام بھی  اخلاص کی دعوت دیتا ہے۔

34:     نظم کا مرکزی خیال لکھیں

اس نظم  کے شاعر رحمان بابا  ہیں۔ وہ پشتو کے مشہور شاعر ہیں۔ اس نظم میں وہ اخلاص کی دعوت دیتے ہیں کہ اگر کسی انسان کا اخلاق بہتر ہے تو نا ممکن کام بھی انجام دے سکتا ہے۔ وہ انسان فرش سے عرش جیسا ناممکن سفر بھی لمحوں میں انجام دے سکتا ہے۔  شاعر کے نزدیک اسلام کا دوسرا نام دینِ اخلاص ہے  کیوں کہ اسلام میں  اخلاق کی پابندی کا سختی سے حکم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری میٹھی گفتگو پر حیرت زدہ نہیں ہونا چا ہیے کیوں کہ میرا کلام ہی کلامِ اخلاص ہے۔

 

حوالہ کے اشعار

؎           گفتگو میں وہ حلاوت و عمل میں اخلاص                 اس کی ہستی پہ فرشتے کا گماں ہو جیسے

؎           دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے                  پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

؎           بہت ہی کم نظر آیا مجھے اخلاص لوگوں میں             یہ دولت بٹ گئی شاید خاص لوگوں میں

؎           گہ فرش سے تا عرش سفر ہے دشوار                   طے کرتی ہے بھی  نہ یک جنبش گامِ اخلاص

؎           اسلام ہے پابندی اخلاص کا نام                          اور نام ہے اسلام کا نام اخلاص

 

آیات

اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  یقینا اخلاق کے بہترین رتبے پر فائز ہیں۔ ( سورہ قلم: 4)

 

تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں اور اگر آپ ترش مزاج، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کے پاس سے بھاگ جاتے ۔ (سورۃ آل  عمران: 159)

احادیث

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالی نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا

(شرح السنۃ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا:

کیا میں تمھیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو قیامت کے دن تم سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میری مجلس کے قریب ہوگا: ہم نے عرض کی یارسول اللہ! کیوں نہیں!  ارشاد فرمایا: وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے۔ (مسند احمد)

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مسلمانوں میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے۔ (مسند احمد )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بندہ  حسن اخلاق کی وجہ سے دن میں روزے رکھنے اور رات میں قیام کرنے والوں کا درجہ پالیتا ہے۔(معجم الکبیر )

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!