نظم امید

نظم امید (ہئیت: مسدس)

 

بس اے ناامیدی نہ یوں دل بجھاتو                 جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو

ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو                            فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو

ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں          جلی کھیتیاں  تو نے سرسبز کی ہیں

1:      اس بند میں موجود صنعت تضاد کی تمام مثالوں کی نشان دہی کریں

اس بند میں مندرجہ ذیل الفاظ کی صورت میں صنعت تضاد ملتی ہے۔

نا امیدی              امید                           

نا امید                ڈھارس بندھانا

فَسُردہ دل            دل بڑھانا

مُردہ                   جان پڑنا 

جلی کھیتی              سرسبز

 2:      شاعر ناامیدی سے کیا کہہ رہے ہیں؟

شاعر نا امیدی سے کہہ رہے ہیں کہ جو دل پہلے سے ہی اداس ہیں ان کے دل مزید نہ بجھا،  بل کہ اب امید کو آنے دے تا کہ وہ ان افسردہ دلوں میں اپنی کرن جگا کر انھیں محنت کی طرف لا سکے۔

3:      امید کے جھلک دکھانے سے کیا مراد ہے؟

امید کے جھلک دکھانے سے یہ مراد ہے کہ ہمیں کسی قسم کے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بل کہ ہمیشہ امید کا دامن تھام کر محنت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ محنت کرنے والوں کی کوشش کو ضائع نہیں کرتے۔

www.universalurdu.com

4:      فسردہ دلوں کے کے دل بڑھانے سے کیا مراد ہے؟

5:      فسردہ دل کیسے بڑھتے ہیں؟

فسردہ دل یعنی مایوس اور اداس دلوں کے دل بڑھانے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمت کریں، امید کا دامن تھامیں، مخالف حالات سے تھک نہ جائیں اور نہ ہی کامیابی کی امید چھوڑ دیں، بل کہ عزم و ہمت سے کام لیں۔ امید نے بڑے  ناممکن کام کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فسردہ دل امید کی وجہ سے بڑھتے ہیں۔

6:      نا امیدوں کی ڈھارس کیسے بندھتی ہے؟

نا امیدوں کی ڈھارس امید سے بندھتی ہے کیوں  کہ یہ امید ہی ہے جو اس وقت کام آتی ہے جب انسان مخالف حالات اور ناکامیوں کو دیکھ کر مایوس ہو چکا ہوتا ہے۔

 

 

7:      مردوں میں جانیں پڑنے سے کیا مراد لی جارہی ہے؟

مردہ  د دلوں میں جان پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مایوس اور ہارے ہوئے دل امید کی وجہ سے دوبارہ محنت کی طرف آ رہے ہیں۔ وہ وجوہات جن کی وجہ سے وہ جینا چھوڑ رہے تھے، امید کی وجہ سے ان میں زندگی اور جینے کی تمنا پیدا ہو جاتی ہے۔

8:      جلی کھیتیوں کے سر سبز ہونے سے کیا   مراد ہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بستی کی تباہی کے بعد انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ  دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکتی، جہاں بہار آنے کا امکان تک نہیں ہوتا اگر وہاں کے مکین، چاہے  کسان  ہوں  یا دیگر شعبۂ زندگی کے ماہرین،  وہ امید سے کام لے کر ایسی جلی کھیتیوں کو بھی سرسبز کر سکتے ہیں، یعنی انھیں دوبارہ سے رونق افروز کر سکتے ہیں۔

9:         ناامیدوں کی ڈھارس کون بندھاتا ہے؟

            جب کہ انسان ناکامیوں اور برے حالا ت سے مایوس ہو جاتا  ہے توامید   اس کی ڈھارس  بندھاتی ہے۔

10:     فسردہ دلوں کے دل کون بڑھاتا ہے؟

فسردہ دل، یعنی اداس دل جو کہ ناکامیوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہو  چکے ہوتے ہیں، امید ان کی ہمت اور حوصلہ  بڑھاتی ہے کہ شاید اگلی کوشش پر کامیابی مل جائے۔ اس طرح اداس دل  کو بھی حوصلہ مل جاتا ہے۔

www.universalurdu.com

11:    کس کے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی؟

امید کے دم سے مُردہ دلوں میں جانیں پڑی ہیں، جب کہ کوئی دل مکمل تھک ہار کر اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے، تب امید ہی اسے پھر سے کوشش کرنے ، جینے اور محنت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔

12:     کس نے جلی کھیتیاں سرسبز کی؟

امید نے جلی کھیتیاں سرسبز کی ہیں۔ کیوں کہ  انسان برے حالا ت اور شکست سے گھبرا کر  ہمت ہار جاتا ہے، یہ امید ہی ہوتی ہے جو اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور وہ ناممکن کام بھی آسانی سے انجام دے لیتا ہے۔

 

سفینۂ پئے نوحِ طوفاں میں تو تھی                   سکوں بخشِ یعقوب کنعاں میں تو تھی

زلیخا کی غمخوار ہجراں میں تو تھی          دل آرام یوسف کی زنداں میں تو تھی

مصائب نے جب آن کر اُن کو گھیرا      سہارا وہاں سب کو تھا  ایک تیرا

13:      اس بند میں موجود تمام تلمیحات کی وضاحت کریں

اس بند  میں مندرجہ ذیل تلمیحات استعمال ہو رہی ہیں:

            سفینۂ طوفانِ نوح    یعقوب کنعاں        زلیخا       یوسف    زندانِ یوسف

طوفانِ نوح اور سفینۂ نوح:     حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو 950 سال تبلیغ کی۔ سورہ العنکبوت کی آیت نمبر14میں الف سنۃ الا خمسین عاما کے الفاظ آئے ہیں۔  یعنی ایک ہزارسے 50 سال کم۔ اس کے بعد حضرت نوح  علیہ السلام نے اس قوم کے لیے دعا کی اور انھیں کشتی بنانے کا حکم ہوا۔ کشتی بننے کے بعد حکم ہوا کہ اہلِ ایمان اور تمام جانوروں اور پرندوں کا ایک ایک جوڑا سوار کر لیں۔ اس کے بعد ایک زبردست طوفان آیا، جو چالیس دن رہا۔ طوفان تھمنے کے  بعد یہ کشتی کوہِ جودی پر اتری۔ اس طوفان کے بعد انسانیت دوبارہ سے آباد ہوئی اور حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا۔ اسی طوفان کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کو آدمِ ثانی کیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب ؑ:     آپ کا  لقب اسرائیل تھا۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد ہیں۔ قرآن مجید میں آپ کا نام 10 بار آیا ہے۔ اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا اور چالیس سال بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ سورہ یوسف تفصیل سے اس واقعہ کو بیان کرتی ہے اور اسے  بہترین قصہ قرار دیتی ہے۔

کنعان:               شام کی قدیم تہذیب کا علاقہ ہے۔ آج کل شام، اردن، فلسطین پر مشتمل ہے۔ 2500 قبل مسیح سے بھی قدیم علاقہ ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا تعلق اسی علاقہ سے تھا۔

حضرت یوسفؑ:     حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ ان کے کنعان سے مصر پہنچنے کے واقعہ پر سورہ یوسف نازل کی گئی۔ بچپن میں بھائیوں نے حسد کی وجہ سے کنویں میں پھینک دیا۔ وہاں سے مصر جا   پہنچے اور چالیس سال بعد اپنے والد سے ملے۔  ان کا حسن تلمیح اور علامت ہے۔   سورہ یوسف ان کی زندگی کی داستان بیان کرتی  ہے۔

www.universalurdu.com

زلیخا:                 جب حضرت یوسف  علیہ السلام جوان ہوئے تو ان کے حسن کی وجہ سے زلیخا (یاد رہے قرآن و حدیث میں یہ نام نہیں ملتا، اسرائیلی روایات میں زلیخا نام ملتا ہے) ان پر فدا ہو گئی اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہا مگر ناکام رہی۔ اس وجہ سے اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل بھجوا دیا۔

زندانِ یوسف:      جب زلیخا کی خواہش پوری نہ ہوئی تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل بھجوا دیا۔ وہاں  وہ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ کافی عرصہ بعد خواب کی تعبیر بتانے کے بعد الزام سے بَری کر کے انھیں مالیات کا شعبہ عطا کیا گیا تا کہ آنے والے قحط سے نمٹ سکیں۔

14:     سفینۂ پئے نوحِ طوفاں میں کس کے ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے؟

اس وقت جب کہ حضرت نوح علیہ السلام کے تمام ساتھی کشتی میں سوا رتھے اور پوری زمیں پانی میں غرق تھی ۔شاعر کے مطابق اس وقت بھی یہ امید ہی تھی جو ان سب کے دلوں  میں تھی کبھی تو یہ طوفان ختم ہو گا اور ہم پھر سے زمین پر آباد ہوں گے۔

 

 

15:     حضرت یعقوب ؑ   کو   کنعاں میں کس نے سکوں بخشا؟

حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی جدائی میں رونے کی وجہ سے نابینا ہو گئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے دل میں امید تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ اپنے کھوئے ہوئے بیٹے سے ضرور ملیں گے۔ اسی امید نے انھیں کنعان میں سکون بخشا۔

16:     حضرت یعقوبؑ کے نام کے ساتھ کنعان کیوں لکھا آ رہا ہے؟

کنعان قدیم شامی تہذیب کا علاقہ تھا۔ جس دور میں حضرت  یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اس وقت وہ علاقہ کنعان کہلاتا تھا۔  اپنے علاقے کی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ کنعان آ رہا ہے۔

17:     زلیخا کی غم خوارِ ہجراں کس کو کہا جا رہا ہے؟

امید کو زلیخا کی غم خوارِ ہجراں کہا جا رہا ہے۔

18:     زنداں میں حضرت یوسفؑ  کے دل کو آرام کس وجہ سےملا؟

19:     شاعر کس کو زنداں میں حضرت یوسف ؑ کے سکون کا باعث قرار دے رہا ہے؟

شاعر کے مطابق زنداں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو امید کی وجہ سے آرام ملا کیوں  کہ انھیں امید تھی کہ کبھی نہ ان کی  بے گناہی ثابت ہو گی اور  وہ جیل سے رہا ہوں گے۔

www.universalurdu.com

20:     “مصائب نے جب آن کر اُن کو گھیرا”   اس مصرعے  میں لفظ “اُن” کس کے لیے استعما ل کیا گیا ہے؟

اس مصرعے میں ان سے مراد اس بند میں موجود تمام تاریخی شخصیات کو کہا جا رہا ہے۔ ان شخصیات میں سفینۂِ نوح کے لوگ، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا  شامل ہیں۔

21:     “سہارا وہاں سب کو تھا  ایک تیرا”                 اس مصرعے میں موجود الفاظ “وہاں، سب کو، تیرا” کی وضاحت کریں کہ کس کے بارے میں کہا جا رہا ہے؟

اس مصرعے میں ‘وہاں’  سے مراد وہ تمام لوگوں پر نازل دہ مصائب ہیں   جن  کا سامنا  ان شخصیات کو رہا۔

1:        طوفان نوح  کے دوران کشتی میں سوار لوگوں کو امید کا سہارا تھا کہ کسی نہ کسی دن یہ پانی اترے گا اور ہم زمین پر دوبارہ آباد ہوں گے۔

2:         حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی جدائی کے دوران امید کا سہارا تھا کہ کبھی نہ  کبھی اللہ تعالیٰ انھیں اپنے بیٹے سے ملوا دیں گے۔ اور اس چیز کے اشارے سورۂ یوسف میں ملتے ہیں۔

3:         زلیخا کو امید کا سہارا تھا کہ کبھی نہ کبھی انھیں اپنے محبوب کی توجہ نصیب ہو گی۔

4:         حضرت یوسف علیہ  السلام کو زندان یعنی جیل میں امید کا سہارا تھا کہ کبھی تو  ان کی بے گناہی ثابت ہو گی  اور وہ زنداں سے نکلیں گے۔ اس چیز کا اشارا اس میں ہے کہ جیل سے نکلنے والے ساتھی کو نصیحت کرتے ہیں کہ بادشاہ سے میرا  ذکر ضرور کرنا۔

22:     اس بند سے کیا درس ملتا ہے؟

اس بند سے یہ درس ملتا  ہے کہ انسان چاہے کسی قسم کی حالت میں  ہو، غم کی شام کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، اردگرد طوفانوں کے سوا کچھ بھی نہ ہو تو بھی  امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ چالیس سال بعد ہی سہی ،منزل ملتی ہے۔ پوری زمیں طوفان میں گھری ہو تو بھی منزل مل کر رہتی ہے۔ بس صبر، ہمت ، حوصلے اور امیدکا دامن نہ چھوڑا جائے۔

بہت ڈوبتوں کو ترایا  ہے تو نے           بگڑتوں کو اکثر بنایا ہے تو نے

اُکھڑتے دلوں کو جمایا ہے تو نے          اجڑتے گھروں کو بسایا ہے تو نے

بہت تو نے پستوں کو بالا کیاہے           اندھیرے میں اکثر اُجالا کیا ہے

23:     اس بند  میں لفظ “تو نے ” کثرت سے آ رہا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

چوں کہ نظم کا موضوع امید ہے۔ اس لیے شاعر لفظ “تو نے” سے امید مراد لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ ‘تو نے’ کثرت سے آ رہا ہے۔

24:     اس بند میں موجود صنعت تضاد  اور ذوالقوافی کے تمام الفاظ تحریر کریں

اس بند میں صنعت تضاد کی مندرجہ ذیل مثالیں ملتی ہیں:

ڈوبتوں (ڈوبنا)                  ترایا(تیرنا)

بگڑتوں                           بنایا

اکھڑتے                          جمایا

اجڑتے                           بسایا

پستوں                             بالا

اندھیرے                        اجالا

ذوالقوافی: کسی شعر میں دو یا دو سے زائد قافیے آنا صنعت ذوالقوافی کہلاتی ہے: اس بند میں اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

“ڈوبتوں،بگڑتوں”              “ترایا، بنایا”

“اکھڑتے، اجڑتے”             “جمایا،بسایا”

www.universalurdu.com

25:     ڈوبتوں کے تیرنے سے کیا مراد لی جا رہی ہے؟

ڈوبتوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو بالکل مایوس ہو چکے ہوں، اور ان کے تیرنے سے مراد یہ ہے کہ امید کی وجہ سے انھوں نے ناامیدی کو چھوڑا اور پھر سے محنت کی اور جس چیز سے مایوس تھے وہ انھیں عطا ہوئی۔ یوں ڈوبتے لوگ امید کی وجہ  سے تیرے یعنی کامیاب ہو گئے۔

 

 

26:     بگڑتوں کو کس نے بنایا؟

بگڑتوں کو امید نے  ترایا، جب کہ حالا ت بالکل برے تھے اور کامیابی کی کوئی امید نہ تھی ، اس حالت میں جن کی زندگی بگڑ رہی تھی وہ امید کی بنیاد پر سنور گئے کیوں کہ انھوں نے ہمت نہین ہاری اور اپنی مسلسل کوشش اور محنت کا نتیجہ پایا۔

27:     ڈوبتوں کو کس نے ترایا؟

جواب 25

28:     آپ بگڑتوں کے بننے سے کیا معنی اخذ کرتے ہیں؟

بگڑتوں کے بننے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ کہ، جن لوگوں کا کردار بگڑ چکا تھا، انھوں نے خود سے کوشش کی اپنا کردار اچھا کیا۔ دوسرا معنی یہ لے سکتے ہیں کہ  جن لوگوں کے کام بگڑ رہے تھے یا وہ مسلسل  مایوس ہو رہے تھے انھوں نے امید کا دامن تھامے رکھا اورا پنی محنت  کی بنیا د پر کامیاب ہو گئے۔

29:     اکھڑتے دل کیسے جمتے ہیں؟ اکھڑتے دلوں کے جمنے سے کیا  مراد ہے؟

اکھڑتے دل سے مراد ہارتے ہوئے انسان یا موت کے قریب پہنچ  جانے والے انسان ہیں۔ اس شعر کے تناظر میں اس سے یہ مراد ہے جب کوئی انسان مایوسی اور ناکامی کے ایسے اندھیروں میں جا چکا تھا کی اس کی شکست یقینی تھی ، اس عالم میں بھی اس نے امید اور کوشش کا دامن نہیں چھوڑا  اور ناکامی کو شکست دی۔ یہاں تک کہ موت جیسی چیز بھی اس کے عزم کی بنا پر پلٹ سکتی ہے۔

www.universalurdu.com

30:     اکھڑتے دلوں کو کس نے جمایا؟

اکھڑتے دلوں کو امید نے جمایا، کہ عین ناکامی اور شکست کے وقت بھی انسان اگر تھوڑی سی اور کوشش اور امید سے کام  لے تو بڑے سے بڑا کارنامہ کر سکتا ہے۔

31:     اجڑتے گھروں کو کس نے بسایا؟

اجڑتے گھروں کو امید  نے بسایا، کیوں کہ یہ امید ہی ہے جو ہر انسان کو پھر سے کوشش اور محنت کی طرف ابھارتی ہے۔ ہر حادثے اور نا امیدی کے بعد انسان امید کی بنا پر دوبارہ سے محنت اور کوشش کرتا ہے۔

32:     اجڑتے گھر کیسے بستے ہیں؟ اجڑتے گھروں کے بسنے سے کیا مراد ہے؟

اجڑتے گھروں کے بسنے  سے مراد  ویران آبادی کا آباد ہونا بھی ہےاور تباہ شدہ اقوام کا پھر سے آباد ہونا بھی ہے۔ امید اور عزم و ہمت کی وجہ سے ہی اجڑی اقوام دوبارہ اٹھتی ہیں۔ ہمارے سامنے جاپان اور چین کی مثال  ہے۔ پہلی قوم ایٹمی حملے کے بعد پھر سے اجڑی بستیوں کو آباد کر چکی ہے جب کہ دوسری قوم جسے نشئی قوم کہا جاتا تھا آج دنیا کی  آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنے عالمی قوت  ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔

 

 

33:     پست بالا کیسے ہوتے ہیں؟

امید کی وجہ سے پست بالا ہوتے ہیں۔ یہ امید ہی ہے کہ دنیا کی گری ہوئی، کم رتبہ اقوام یا  لوگ محنت کرتے ہیں اور بالآخر وہ مقام حاصل کرتے ہیں جس کی توقع کم ہی کی جاتی ہے۔

34:     پستوں کو بالا کس نے کیا؟

پستوں کو بالا امید نے کیا  کیوں کہ امید کی بنیاد پر انسان محنت کر کے وہ مقام حاصل کر سکتاہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔

35:     پستوں کے بالا ہونے سے  شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

پستوں کے بالا ہونے سے شاعر یہ مراد لے رہا ہے کہ امید اور ہمت سے انسان کام کر کے کوئی بھی کارنامہ کر سکتا ہے۔ انسانی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے محنت کی اور وہ مقام حاصل کیا جس کی توقع نہیں تھی اور ان کے ہم عصر ان پر ہنسا کرتے تھے۔

www.universalurdu.com

36:     اندھیرے میں اجالا ہونے سے کیا معنی نکلتے ہیں؟

یہاں اندھیرے میں اجالا ہونے سے یہ مراد ہے کہ مایوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن ہی اجالا کرتی ہے اور ایک ہارے ہوئے انسان میں پھر سے زندگی کی جنگ لڑنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔

37:     اندھیرے میں اجالا کس  نے کیا؟

جواب 36

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!