نظم حمد

حمد

 

فکر و دانش کی ہے معراج خدا کا اقرار

یہی وجدان کی آواز ہے، فطرت کی پکار

 

1:      فکر و دانش کی معراج کیا ہے؟

2:       وجدان کی آواز کیا ہے؟                              

3:      فطرت کی پکار کیا ہے؟

فکر و دانش کی معراج  خدا کا اقرار ہے۔ دنیا بھر میں، کائنات کی پیدائش سے لے کر اس کے کام کرنے تک، ہر جگہ اللہ تعالی کی نشانیاں ملتی ہیں۔ اور انسان جب ان نشانیوں اور ان مینں موجود نظم و ضبط کو دیکھتا ہے تو نہ صرف اس کا دل، بل کہ اس کا ضمیر یعنی وجدان بھی پکار اٹھتا ہے کہ یقینا کوئی ایسی ہستی ہے جو اس کائنات کا نظام چلا رہی ہے اور اس میں کسی قسم کا تصادم نہیں  ہو رہا۔ اسی چیز کو فطرت کی پکار کہا جا رہا ہے کہ کائنات کا کام کرنے کا انداز اور اس میں موجود توازن ہی رب تعالیٰ کی پہچان کے لیے کافی ہے۔

www.universalurdu.com

ذرے ذرے کی شہادت کہ خدا ہے موجود

پتے پتے کو ہے صانع کی صفت کا اقرار

4:      ذرے ذرے کی شہادت کیا ہے؟

ذرے ذرے کی شہادت  یعنی گواہی ہے کہ خدا موجود ہے۔ انسان جب اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز دیکھتا ہے، اس کی ساخت، تخلیق کے مراحل اور اس کی افادیت، سب کچھ پکار پکار کر کسی خالق کے ہونے کی نشان دہی کرتا ہے۔

5:      کس کو صانع کی صفت کا اقرار ہے؟

پتے پتے کو صانع کی صفت کا اقرار ہے۔ ہر پتے  میں اس کے کام کرنے، روشنی اور جڑوں سے حاصل شدہ خوراک کو فوٹو سینتھیسز سے گزار کر کس طرح  استعما ل کرنا ہے، اس نظام سے لے کر پتوں کے نقش و نگار اور رنگ میں فرق، ہر چیز اس بات کی گواہ ہے کہ کسی ذات نے ان سب کو باقاعد ہ تخلیق کر کے ان میں یہ نظام ترتیب دیے ہیں۔

6:      اس شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور شعری مثال تحریر کریں

اس شعر میں دو جگہ صنعت تکرار “ذرے،ذرے” اور “پتے،پتے ” کی صورت میں استعمال ہو رہی ہے۔  صنعت تکرار سے مراد شعر میں ایک لفظ کا دو بار سے زیادہ آنا ہے۔

؎           خوشبو سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ              غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

اسی خلاق نے جوہر کو توانائی دی

پھول پتوں کو عطا جس نے کیے نقش و نگار

7:      کس نے جوہر کو توانائی دی؟

اسی خلاق نے جوہر کو توانائی دی جس نے پھول پتوں کو نقش و نگار عطا کیے۔ جس رب تعالی نے ایٹم جیسی چھوٹی چیز میں اتنی قوت رکھی  ہے کہ وہ پل بھرمیں بڑے سے بڑے شہر کو تباہ برباد کر سکتی ہے دوسری طرف اسی کی صناعی کا نمونہ  پھولوں کی خوشبو اور ان کے خوب صورت نقش و نگار کی صورت میں ملتا ہے۔

8:      یہاں جوہر کی توانائی سے کیا مرا د ہے؟

جوہر کسی بھی چیز کی بنیاد یا اس کی فطرت کو کہتے ہیں۔ یہاں  جوہر کی توانائی سے مراد ذرے میں پوشیدہ قوت ہے۔ انسان نے اسی توانائی کو مثبت پہلو میں استعمال کر کے اس سے ایکس رے، سیٹلائیٹ، جی پی ایس سسٹم سمیت کئی مفید ایجادات کی ہیں۔ دوسری طرف یہی جوہر کی توانائی ہے جب اسے تخریبی پہلو میں استعمال کیا جاتا ہے تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لہٰذا یہاں جوہر یعنی ایٹم کی یہی توانائی ہے جو فوٹون یا  اس انرجی  کی صورت میں موجود ہوتی ہے جو الیکٹران کی حرکت میں کام آتی ہے۔ اور جدید سائنس اسی انرجی کی مدد سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کائنات کے سربستہ راز افشا کرنے  میں مصروف ہے۔

9:      پھول پتوں کو نقش و نگار کس  نے عطا کیے؟

اسی خالق نے پھول پتوں کو نقش و نگار عطا کیے جس نے جوہر کو توانائی عطا کی۔ یہاں رب تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے مختلف پہلو بیان  کیے جا رہے ہیں کہ ایک طرف تو ایٹم جیسی چھوٹی چیز میں قوت بھی رب تعالیٰ رکھ رہے ہیں اور دوسری طرف پھولوں کو اتنے پیارے نقوش عطا کرنے والی ذات بھی رب تعالیٰ  ہی کی ہے۔

www.universalurdu.com

اسی خالق، اسی مالک کی ہے سب حمد و ثنا

آبشاروں کا ترنم ہوکہ گلبانگِ ہزار

10:     کس کی حمد وثنا ہے؟

اسی خالق کی حمد وثنا ہے جس نے آبشاروں کی آواز میں ایسا ترنم رکھ دیا ہے کہ انسان اس سے مسحور ہو جاتا ہے اور مصنوعی طور پر تخلیق شدہ موسیقی کو بھول  جاتا ہے۔ یہی موسیقی ہمیں پرندوں کی آواز کی صورت میں بھی ملتی ہے۔  لہٰذا  اسی خالق و مالک کی حمد و ثنا ہے جو آبشاروں سے لے کر پرندوں تک کو اتنی خوب صورت آواز بخشتا ہے۔

11:      اس شعر میں “اسی” کی صورت میں صنعت تکرار کا استعمال ہوا ہے۔  تعریف و شعری مثال تحریر کریں

جواب 6(سوال کے مطابق تبدیل کر لیں)

 

 

 

یہ سب آیاتِ الہٰی ہیں، ذرا غور سے دیکھ

اُس کی پھر حمد بیاں کر، اُسی خالق کو پکار

12:     “اس،اسی” کس صنعت کی طرف اشارا ہے؟

الفاظ “اس،اسی” ایک ہی مادہ سے بنے ہیں  اور شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مادہ یا مصدر سے بنے ہوں، صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔ اس لیے یہاں صنعت اشتقاق استعمال ہو رہی ہے۔

؎           دن کٹا فریاد میں اور رات زاری میں کٹی               عمر کٹنے کو  کٹی،پر کیا ہی خواری میں کٹی

13:     “یہ سب” کن آیات کی طرف اشارا ہے؟

14:     کیا چیز غور سے دیکھنے کا کہا جا رہا ہے؟

لفظ “آیات” کا مطلب نشانیاں ہوتا ہے۔ اس شعر میں لفظ “یہ سب” نظم میں بیان کردہ تمام نشانیوں کی طرف اشارا ہے جنھیں شاعر بیان کر رہا ہے۔ ان میں ذرے کی توانائی، پھول پتوں کے نقش و نگار، فطرت کے کام کرنے کا انداز، آبشاروں کا ترنم اور پرندوں کی پیاری آواز، ان سب کی طرف اشارا  کیا جا رہا ہے کہ انھیں غور سے دیکھ کرسمجھیں کہ رب تعالی کی ذات کا وجود ہے۔

15:     اس شعر کا مفہوم بیان کریں

اس شعر کے مطابق شاعر کہہ رہے ہیں کہ پہلے اپنی عقل اور فہم کو کام  میں لاتے ہوئے اللہ تعالی کی تمام نشانیوں  پر غور  و فکر  کریں۔ اس شعر میں لفظ ‘پھر’  اس کی حمد بیاں کر کی صورت میں حسن پایا جاتا ہے کہ پہلے غور و فکر کرو، عقل سے چھان بین کرو، جب ضمیر مطمئن ہو جائے تب اللہ تعالی کو سرسری طور پر نہیں بل کہ دلائل و دل سے مکمل طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت کرو۔

www.universalurdu.com

اس کی صنعت کے نمونے ہیں وہ نکہت ہو کہ رنگ

اس کی قدرت کے کرشمے ہیں، خزاں ہو کہ بہار

16:     اس شعر میں “خزاں، بہار” کی صورت میں صنعت تضاد ہے۔  صنعت تضاد کا شعر لکھیں

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

17:     اس شعر میں “اس کی” کسے کہا جا رہا ہے؟

اس شعر میں شاعر لفظ ‘اس کی’ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال کر رہا ہے کہ انسان بہار و خزاں، اور پھول اور اس کی خوب صورتی کو دیکھے، یہ سب اللہ تعالی کی تخلیق اور صنعت کےنمونے ہیں۔

18:     اللہ تعالی ک صنعت کے نمونے کیا ہیں؟

شاعر کے مطابق پھول کا رنگ اور اس کی خوشبو، سب اللہ تعالی کی صنعت کے نمونے ہیں۔ مختلف قسم کے پھول ایک ہی جگہ پر اگتے ہیں مگر ان کا رنگ اور خوشبو الگ الگ ہوتی ہے۔ پھر ایک ہی پودے پر لگے پھول الگ الگ نقوش کے حامل ہوتے ہیں۔ ہر پھول کی پتی الگ ساخت رکھتی ہے۔ گویا یہ سب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تخلیق کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے۔ حادثاتی طور پر اور خودبخود (خود بہ خود)ہمارا وجود ممکن نہیں۔

19:     اللہ تعالی کی قدرت کے کرشمے کیا ہیں؟

اللہ تعالی کی قدرت کے کرشمے خزاں اور بہار کی صورت میں ملتے ہیں۔ موسموں کے ہیر پھیر میں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔

وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ. (یس: 33(

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ(یس : 34)

اور ان کے لئے ایک نشانی (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔

اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کردیئے اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کردیئے ہیں۔

(ترجمہ: جوناگڑھی)

نوٹ: تما م اشعار  کی تشریح کے لیے حوالہ کی آیات و اشعار درج ہیں۔ اس کے علاوہ موضوع کی مناسبت سے کوئی بھی آیت، حدیث یا  حمدیہ شعر  لکھا جا سکتا ہے۔

حوالہ کی آیات

 

وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ              (یس: 37)

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (یس 38)

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ        (یس 39)

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یس 40)

 

لوگوں کے لیے رات بھی قدرت کی ایک نشانی ہے، ہم اس سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا حساب ہے۔

اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند ہوجاتا ہے۔

نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پا لے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔

(ترجمہ: فہم القرآن)

حوالہ کے اشعار

؎           لاکھ پردوں میں تو ہے بے پردہ                                     لاکھ نشانوں میں بے نشان تو ہے

؎           جگ میں اکر ادھر دیکھا، اُدھر دیکھا                                تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

؎            بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے                          دکھائے اٌپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے

؎           پتا پتا بوٹا بوٹا ذکرِ خدا میں کھویا                                       ڈالی ڈالی غنچہ غنچہ ذکرِ خدا میں کھویا

www.universalurdu.com

شاعر کا تعارف

ماہر القادری اردو ادب کے اہم نعتیہ شاعر ہیں۔ اصل نام منظور حسین تھا۔ زندگی کا بیشتر حصہ حیدرآباد دکن، دلی اور بمبئی  میں گزارا اور آخر میں کراچی میں قیام کیا۔

ان کی شاعری کی خصوصیات میں سادگی اور بے تکلفی ہے۔ ان کی نعتوں کا مرکز حضرت محمد خاتم النبین ﷺ کی ذات کا عشق ہے۔ آپ کا انتقال جدہ میں مشاعرے کے دوران ہوا اور مکۃ المکرمہ  کے قبرستان  جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ان کی کتابوں میں ظہورِ قدسی (نعتیں) ، طلسم، حیات، محسوساتِ ماہر، نغماتِ ماہر،جذباتِ ماہر کے علاوہ حج کے تاثرات پر مشتمل سفر نامہ/ حج نامہ کاروانِ حجاز بھی ہے۔

مرکزی خیال

حمد ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں اللہ تعالی کی صفات، جلال، قدرت، نعمتوں وغیرہ کا اظہار کیا جائے۔  اس نظم میں ماہر القادری اللہ تعالی کی تخلیق، اور نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کا نظم و ضبط، اس کا کام کرنے کا  انداز، جوہرکی توانائی سے لے کر  درختوں کے پتوں ، پھولوں کی خوب صورتی تک ہر چیز اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ کائنات کو بنانے والی کوئی نہ کوئی ذات ہے۔ موسموں کی تبدیلی بہار و خزاں کی صورت میں ہو یا پرندوں کی خوب صورت آوازیں، اور آبشاروں کا پر کیف ترنم سبھی اسی چیز کے گواہ ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالی کا وجود ہے۔ لہٰذا ہمیں اللہ تعالی کی تمام نعمتوں کو دیکھنا چاہیے، اور ان کےبعد اللہ تعالی ہی کو پکارنا اور اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!