نظم شکست کی آواز سوال جواب

شکست کی آواز

1:     شاعر کے دل کی کیا کیفیت ہے؟

شاعر کو اس کی امنگوں نے الجھن میں ڈالا ہوا ہے۔ وہ مسلسل کشمکش کا شکار ہے اور اس نظم میں اسی کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے۔

2:     شاعر کو کس نے الجھن میں ڈالا ہے؟

شاعر کو اس کی امنگوں نے الجھن میں ڈالا ہوا ہے۔ اس کی یہی امنگیں اس کی الجھن اور پریشانی کا سبب ہیں اور وہ نئے نئے خیالات سوچتا ہے، مگر اپنے ماحول اور معاشرتی رویے کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا۔

3:     شاعرالجھن میں کیوں ہے؟

کیوں کہ اس کی امنگیں اسے مسلسل کچھ کرنے پر اکسا رہی ہیں۔ شاعر کے دل میں تمنا اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے اور وہ ایک منجمد معاشرے کا فرد ہے۔ اسی وجہ سے وہ الجھن کا شکار ہے۔

4:     شاعر کا دل کیا سمجھتا ہے؟

شاعر کا دل سمجھتا ہے کہ جو بھی کام ہے، وہ کرنے والا ہے۔اور وہ اسی تمنا کی وجہ سے مسلسل کچھ نہ کچھ کرنے کا متمنی ہے مگر معاشرتی رویے کی وجہ سے مایوس ہے۔

5:     شاعر کا دل کیا کہتاہے؟

 شاعر  کا دل کہتا ہے کہ میں سواروں کو نئے رستے دکھاؤں، فلک سے ماہ پاروں کو لے آؤں اور صحرا کی دوری پل میں طے کروں۔ یعنی وہ نئے انداز سے سوچنا اورکچھ نیا کر دکھانا چاہتا ہے مگر نہیں کر پا رہا۔

6:     سواروں کو نئے رستے دکھانے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد نئی سوچ ہے یعنی  پرانے طریقے بدل کر نئے اور مؤثر انداز میں کام کرنا اور ترقی و نئی سوچ کو پروان چڑھا کر  نئی روایت قائم کرنا چاہتا ہے۔

7:     فلک سے ماہ پاروں کو لانے سے کیا مراد ہے؟

 اس سے مراد ناممکن  کام کرنا بھی ہے اور سائنسی لحاظ سے اتنی ترقی کرنا کہ ہم خلائی اور دیگر سائنسی تحقیق و علوم میں باقی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ اس طرح شاعر اپنے معاشرے کے لیے کچھ کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔

8:     صحرا کی دوری پل میں طے کرنے سے، شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اتنے ترقی یافتہ ہو جائیں کہ صحرا جیسا سست اور ناممکن سفر بھی لمحوں میں طے کر لیں۔اس کا دوسرا معنی قوم کو ان مشکلات سے جلد از جلد نکالنا ہے۔

9:     شاعر کیا احساس پیدا کرنا چاہتاہے؟

شاعر قوم میں شعور بیدار کرنا چاہتا ہے کہ وہ نئے انداز سے سوچنا شروع کر دیں اور ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر مدد کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور سوچ اپناتے ہوئے دنیا کی ترقی میں اپنا کردار کریں۔ مردہ اور منجمد معاشرہ بننے کے بجائے متحرک اور وسیع سوچ کا حامل معاشرہ تشکیل دنیا شاعر کی خواہش ہے۔

10:   شاعر کون سا جہان دیکھنا چاہتا ہے؟

شاعر قلب سمندر یعنی سمندر کی گہرائی میں موجود دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ تحقیق اور تلاش کے ذریعے سمندر میں چھپی دنیا اور اس کی دریافت کا متلاشی اور متجسس ہے۔

11:   قلب سمندر کے جہاں سے کیا مراد ہے؟

 اس سے مراد سمندر کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی دنیا اور اس کے راز ہیں جن میں سمندری مخلوقات، معدنیات سمیت وہاں موجود ہر قسم کی چیزیں اور ان سے آگاہی حاصل کرنا شامل ہے۔

12:   شاعر کون سا بیان پانا چاہتا ہے؟

شاعر پہاڑ کی بلندی پر موجود سنگ یعنی پتھر کا بیان پانا چاہتا ہے۔ اس کا تجسس اسے ہر چیز کی حقیقت سے آشنا ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔

13:   کوہ کے سر میں کیا ہے؟

کوہ کے سر میں بیان سنگ منجمد ہے، یعنی ابھی تک پہاڑ کی بلندی پر موجود پتھروں کے رازوں سے کوئی آشنا نہیں ہوا۔

14:   کون کہتا ہے کہ ساری کائنات اک ذرہ بن جائے؟

 شاعر کا  دل کہتا ہے کہ ساری کائنات اک ذرہ بن جائے۔ اس طرح وہ اتنی وسیع کائنات کو جاننے کے لیے پر جوش اور متجسس ہے۔

15:   کائنات کے ذرہ بننے سے کیا مراد ہے؟

کائنات کے ذرہ بننے سے مراد یہ ہے کہ شاعر کائنات، اس کی ابتدا، اس کے کام کرنے کا انداز، اس میں چھپے راز جاننا چاہتا ہے۔ یہ اس کا تجسس ہے جو اس لامحدود کائنات کو ذرہ بنا کر سب کچھ جاننا چاہتا ہے۔

16:   لا انتہا وقفہ، لمحہ کیسے بنتا ہے؟

جب انسان سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ہوتا ہے تو وقت اور فاصلوں پر گرفت حاصل کر لیتا ہے۔ یہاں بھی یہ مراد ہے کہ قوم اتنی با شعور اور ترقی یافتہ ہو کہ وقت کی رفتار سے بھی آگے نکل جائے اور یہ مشکلات کا دور اک لمحے کی طرح گزر جائے۔

17:   لا انتہا وقفہ، لمحہ: کون سی صنعت ہے؟

لا انتہا وقفہ سے مراد لا محدود وقت ہے جب کہ لمحہ تھوڑے سے وقت کو کہتے ہیں۔ اس لیے یہ صنعت تضاد ہے۔

18:   “مگر اونچے ارادے ہیں تو کیا اونچے ارادوں کو” میں موجود صنعت کی تعریف کریں

 اس مصرعے میں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ لفظ “اونچے” چند الفاظ کے بعد دہرایا جا رہا ہے۔

19:   کس میں سمجھنے کا احساس نہیں؟

سیدھے سادے  لوگوں میں سمجھنے کا احساس نہیں۔ اور یہاں سمجھنے کے احساس سے مراد منجمد سوچ ہے جو نئی سوچ اور نظریات کو قبول نہ کر سکے، اور نہ ہی کوئی کوشش کرے۔ بل کہ خود کو تقدیر کے حوالے کر کے کوشش چھوڑ دے۔

20:   سمجھنے کا احساس نہ ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے مراد جدید ترقی یافتہ سوچ کا حامل نہ ہونا، یا کچھ کرنے کا جذبہ نہ ہونا ، باقی اقوام کا مقابلہ کرنے کی خواہش کا نہ ہونا اور جو بھی حالات ہوں ان کو درست  کرنے کے بجائے تقدیر کہہ کر ٹال دینا  مراد ہے۔

21:   کون کثرت سے رہتا ہے؟

سیدھے سادے آدمی کثرت سے رہتے ہیں۔ اور یہاں سیدھے سادے لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو کوشش نہیں کرتے اور ہر چیز کے حوالے سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تقدیر میں لکھا ہوا ہے، ہمارے چکھ کرنے یا نہ کرنے سے دفرق نہیں پڑے گا۔

22:   سیدھے سادے آدمی سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد پرانی سوچ کا آدمی ہے جو ہر چیز کو تقدیر کہہ کر کوئی کوشش نہیں کرتا بل کہ تاریک خیالی کا ثبوت دیتا ہے۔

23:   سیدھے سادھے آدمیوں کی کتنی ہمت ہوتی ہے؟

ان کی ہمت بہت محدود ہوتی ہے اور وہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کچھ کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جو تقدیر میں لکھا ہے وہی ہو گا۔ اس وجہ سے وہ محنت اور کوشش چھوڑ دیتے ہیں۔

24:   محدود ہمت اور رستوں سے کیا مراد ہے؟

محدور ہمت سے مراد مشکل دیکھ کر اسے تقدیر سمجھ کر وہیں بیٹھ جانا مراد ہے جب کہ محدود رستوں سے مراد محدود  اور پرانی سوچ ہے جو نئی ایجادات اور نئے طریقوں کو آسانی سے قبول نہیں کر سکتی۔

25:   اس شعر میں “محدود” کس صنعت کی مثال ہے؟

اس مصرعے میں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ لفظ “محدود” چند الفاظ کے بعد دہرایا جا رہا ہے۔

ص 205

26:   کس چیز نے پھندا ڈالا ہے؟

تمدن اور تہذیب نے پھندا ڈالا ہے۔

27:   تمدن اور تہذیب سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد انسانی معاشرہ، ان کا طرز رہن سہن، رسوم و رواج اور اندزِ فکر ہے۔ شاعر ان کو پھندے کہہ رہا ہے کیوں کہ یہ انسان کو آگے بڑھنے اور کچھ نیا کرنے سے روکتے ہیں اور قسمت اور تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنے کی دعوت دیتے ہیں۔

28:   تمدن اور تہذیب کس طرح پھندا ڈالتے ہیں؟

 لوگ اپنی رسوم، مذہب یا کسی دوسری رکاوٹ کی وجہ سے کوئی مثبت کام نہیں کرتے۔ یا بعض اوقات یہ کہتے ہیں کہ، چوں کہ سب کچھ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے، اس لیے ہمارے کچھ کرنے یا نہ کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اسی منجمد سوچ کو شاعر تہذیب و تمدن کا پھندا کہہ رہا ہے۔

29:   کون کہتا ہے کہ، ہونا ہے وہی جو ہونے والا ہے؟

سیدھے سادے لوگ کہتے ہیں کہ “ہونا ہےوہی، جو ہونے والا ہے۔”  اس طرھ لوگوں کے سست اور نئی روایات کو آسانی سے نہ اپنانے اور کوشش چھوڑ دینے کا ذکرکرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت یا کوشش سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کا فائدہ ہے۔ وہ کوشش کریں گے تو بھی وہی ہو گا جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔

30:   یہاں “وہ” سے کون مراد ہے؟

یہاں وہ سے مراد سیدھے سادے لوگ ہیں۔

31:   ہونا، ہونے والا: کون سی صنعت ہے؟

لفظ ‘ہونا’ مصدر ہے اور ‘ہونے والا’ اس سے مشتق ہے۔ اور شاعری میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مصدر/مادے سے مشتق ہوں صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔ اس لیے یہ  صنعت اشتقاق ہے۔

32:   قدرت کے طریقے کیوں نہیں بدل سکتے؟

سیدھے سادھے لوگوں کے مطابق قدرت کے طریقے نہیں بدل سکتے، کیوں کہ آپ جو مرضی کر لیں ہو گا وہی جو تقدیر میں لکھا ہو گا۔

33:   کیا ہم قدرت کے طریقے بدل سکتے ہیں؟ اپنی رائے دیں

طلباء ، اپنی سوچ کے مطابق جواب تحریر کریں

34:   دامنوں پر مشیت کے ہاتھ ہونے سے کیا مراد ہے؟

 اس سے مراد یہ ہے کہ انسان جتنی مرضی کوشش کر لے آخر میں ہو گا وہی جو تقدیر میں لکھا ہے۔ یعنی انسان کی کوشش اور محنت کا کوئی فائدہ نہیں۔

35:   “لکیروں کی فقیری” قواعد کی رو سے کیا ہے؟

لکیروں کی فقیری محاورہ ہے جس کے معنی نئی کوشش نہ کرنا یا نئے نظریات نہ اپنانا ہے اور جو روایت پہلے سی چلی آ رہی ہے، اسی پر بن سوچے اور بلا تحقیق عمل پیرا رہنا ہے۔

36:   “انھیں” سے کون لوگ مراد ہیں؟

یہاں انھیں سے مراد نظم میں پہلے سے بیان شدہ سیدھے سادے لوگ ہیں۔

37:   کس کو لکیروں کی فقیری میں تسکین ہے؟

 سیدھے سادے لوگوں کو لکیروں کی فقیری میں تسکین ہے یعنی وہ کچھ نیا کرنے یا سوچنے کا جذبہ نہیں رکھتے، بل کہ پہلے سے بنی ہوئی روایات پر قائم رہتے ہوئے انہی پر خوش ہیں۔

38:   پہلی لکیروں کی فقیری سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے جو فیصلہ کر دیا ہے یا جو کہہ دیا ہے اسے پتھر پر لکیر سمجھ لیا جائے اور نئے طریقے یا نیا انداز فکر آنے پر بھی اسی سے چمٹے رہیں اورسامنے آنے والے حقائق کو جھٹلا دیا جائے۔

39:   کون تمنا کی ضعیفی اور پیری میں کھویا ہے؟

سیدھے سادے لوگ تمنا کی ضعیفی اور پیری میں کھوئے ہیں۔ یعنی وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ان کی سوچ صرف اپنی زات تک محدود ہے۔ وہ کچھ نیا کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے۔

40:   کس کے دل پر اثر ہوتا ہے؟

شاعر کے دل پر اثر ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے معاشرے سے متاثر ہو کر شدید کشمکش کا  شکار ہے کیوں کہ شاعر کا دل متحرک جب کہ معاشرہ منجمد ہے۔

41:   شاعر کے دل  پر کیا اثر ہوتا ہے؟

شاعر کے دل پر ماحول کے جذب ساکن کا اثر ہوتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اپنی شکست تسلیم کر رہا ہے کہ اس میں اپنے معاشرے اور اس کی سوچ کو بدلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

42:   کیا ماحول انسان کو بدل سکتا ہے؟ اپنی رائے دیں

طلباء اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

43:   شاعر کیوں مظلوم ہے؟

شاعر کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ بے سکونی اور انجماد کے بجائے محنت اور مسلسل کوشش کا قائل ہے جب کہ معاشرہ ساکن ہے۔ جو محنت اور کوشش کا قائل نہیں بل کہ ہر چیز کو تقدیر کا حصہ سمجھ کر جذب ساکن کا شکار ہو چکا ہے۔

44:   ماحول کے جذب ساکن سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد ایسا معاشرہ ہے جس میں کوئی مثبت یا تعمیری سرگرمی نہ ہو بل کہ وہ ہر چیز کو  تقدیر کا حصہ سمجھ کر کچھ بھی نہ کرے اور خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔

45:   دل میں جُوالا ہونے سے کیا مراد ہے؟

دل میں جوالا ہونے سے مراد یہ ہے کہ دل میں کام کرنے اور ترقی و تحقیق کی آرزو ہے۔ شاعر کچھ نیا اور انوکھا کرنا چاہتا ہے، وہ نئی روایات اور رستوں کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے اور اسی چیز کو “جوالا” قرار دے رہا ہے۔

46:   پابند نظم کی تعریف کریں؟

پابند نظم ایسی نظم ہے جس میں عروض، ردیف اور قافیہ کی پابندی کی جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!