نظم شہر آشوب

شہر آشوب (نظم کی ہئیت: مسدس)

نظم کا پس منظر:   (یہی پس منظر تشریح اور مرکزی خیال  میں شامل کیا جا   سکتا ہے)

شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں  کسی شہر یا ملک کے برے حالات، فتنہ فساد، لوٹ مار، یا عوامی بدحالی کا ذکر ہو۔ نظیر اکبر آبادی  کا تعلق آگرہ شہر سے تھا، 1739ء میں نادر شاہ کے دہلی پر حملے اور اس  کے 17 سال بعد احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مغلیہ سلطنت کو کمزور کر دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آگرہ اور گرد و نواح میں دیگر اقوام نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔آگرہ مغلیہ سلطنت کا عظیم الشان شہر تھا جس میں شاہ جہاں اور سکندر کی تعمیر کردہ عمارات ان کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان عمارات میں مشہورتاج محل، لال قلعہ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، شاہی جامع مسجد، قلعہ موتی اور اکبر کا مقبرہ وغیرہ شامل ہیں۔ مگر  مرہٹوں اور جاٹوں نے آگرہ میں وہ تباہی اور لوٹ مار مچائی کہ اس کی خوش حالی اور عظمت خاک میں مل  کر رہ گئی۔ نظر اکبر آبادی نے یہ ساری لوٹ مار اور تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس سب کو اپنی شہر آشوب میں رقم کیا ہے۔ 

شاعر کا تعارف:

آپ کا اصل نام شیخ ولی محمد تھا۔ تخلص نظیرؔ تھا۔ آگرہ میں پیدا ہوئے، لکھنؤ کے مزاج سے بھی واقف تھے۔ آپ کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ کے موضوعاتِ شاعری عوامی تھے۔  انھوں نےہر ہندوستانی تہوار پر نظمیں لکھیں۔ عوامی شاعر ہونے کی وجہ سے ان  کی زبان بھی سادہ ہے۔ اس میں لکھنؤ کی طرح استعارات و ایہام کی کثرت نہیں اور نہ  ہی چن چن کر مشکل الفاط کا انتخاب ہے مگر ان کی زبان سادہ اور صاف ہے جس میں روانی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔

 

 

مرکزی خیال:

دیے گئے اشعار نصاب میں شامل نظم “شہرِ آشوب ” سے لیےگئے ہیں۔ شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر یا ملک کی تباہی و بربادی، غربت، برے حالات ، سیاسی و سماجی انتشار یا عوامی بدحالی کا  ذکر ہو۔ اس نظم میں نظیر اکبر آبادی آگرہ شہر کے اس وقت کے حالات قلم بند کرتے ہیں جب آگرہ جیسے عظیم الشان شہر کو جاٹوں اور مرہٹوں نے اپنی لوٹ مار اور تباہی کا نشانہ بنا رکھا تھا اور  اس شہر کی عظمت خاک میں مل چکی تھی۔ اس نظم کے آغاز  میں  وہ کہتے ہیں  کہ آگرہ کے عوام کے حالات اس قدر بر ےہیں کہ میرے سخن کا اختیار بند ہو کر رہ گیا ہے۔  شہر میں ہر قسم کے کاروبار تباہ  ہو چکے ہیں، قرض دینے والے سیٹھ اور دیگر کاروباری حضرات اب ادھار کھانے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنے گھروں کی مرمت کروا سکیں۔ اور کچھ گھروں میں یہ کیفیت آ چکی ہے کہ ان کے پاس فقیروں  کو دینے کے لیے بھی  کچھ نہیں۔ غرض  ہر شخص پریشان ہے۔ آخر میں وہ آگرہ شہر کے لیے دعا گو ہیں کہ اس شہر کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں اور لوگوں  کے بند کاروبار چلنا شروع ہو جائیں۔ کسی بھی شخص کو روزی کی فکر  نہ ہو۔

 

ہے اب تو کچھ سخن کا مرے اختیار بند              رہتی ہے طبعِ سوچ میں لیل و نہار بند

دریا سخن کی فکر کا ہے موجدار بند                  ہو کِس طرح نہ منہ میں زباں بار بار بند

جب آگرے کی خلق کا ہو روزگار بند

1:      سخن کے اختیار کے بند ہونے سے کیا مراد ہے؟

2:      دریا سخن کی فکر کے موجدار بند ہونے کی وضاحت کریں

3:      شاعر شاعری کیوں نہیں کر رہا؟

نظیر  اکبر آبادی اس نظم میں آگرہ شہر کا ‘شہرِ آشوب’ کہہ رہے ہیں اور وہ وہاں کی عوام کی مفلسی اور برے حالات کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ یہاں  سیاسی انتشار اور  مرہٹوں کی لوٹ مار کے مارے وہ کیفیت ہے کہ میرے پاس بیان کرنے کے الفاظ نہیں۔ جب کہ پوری عوام ہی بری حالت میں ہے تو میرا اپنا دل اس قدر گرفتہ ہے کہ مجھ سے شاعری ہی نہیں ہو رہی۔ یہی وجہ ہے کہ میری فکرِ سخن کا دریائے موج دار بند ہے یعنی میری شاعری کی قوت کام نہیں کر رہی۔

4:      شاعر دن رات کیا کرتے ہیں؟

5:      شاعر کن سوچوں میں گم ہیں؟

اس بند میں شاعر اپنے بارے میں بتا رہے ہیں کہ آگرہ کے حالات اتنے برے ہیں کہ میری سوچنے کی صلاحیت بند ہو چکی ہے۔ دوسرے معنوں میں، شاعر دن  رات عوام کی فکر میں گم ہیں۔

6:      پہلے شعر میں موجود صنعت کی وضاحت کریں

            پہلے شعر میں “لیل و نہار” کی صورت میں متضاد الفاظ  ہیں۔ ان متضاد الفاظ کی وجہ سے یہاں صنعت تضاد پائی جا رہی ہے۔

 

7:       دوسرے شعر میں صنعت تکرار کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟ نیز دو شعری مثالیں تحریر کریں

شعر میں کسی لفظ کا دہرایا جانا صنعت تکرار کہلاتا ہے۔ دوسرے شعر میں لفظ ‘باربار’ کی صورت میں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے۔

؎           پتا پتا، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے                      جانے ، نہ جانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

؎           ذرے ذرے کی شہادت کہ خدا ہے موجود            پتے پتے کو ہے صانع کی صفت کا اقرار

8:      زباں کیوں بند ہو رہی ہے؟؟

9:      آگرہ کی عوام کی کیا حالت بتائی جا رہی ہے؟

10:     آگرہ کی عوام کو کیا مسئلہ درپیش ہے؟

11:    آگرہ کی عوام کا روزگار کیوں بند ہے؟

سیاسی انتشار، حکومت کا نہ ہونا، اور جاٹوں اور مرہٹوں  کی لوٹ مار  اور غربت کی وجہ سے پوری عوام کا روزگار بند ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کہہ رہے ہیں، اس معاشی بدحالی کی وجہ سے میری زبان کیوں نہ بند ہو، کیوں کہ یہ کیفیت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں، اور اگر الفاط ہوں بھی تو  غربت  کی ماری عوام کے لیے لفظوں کا دلاسا کیا مدد کر سکتا ہے؟

12:     آگرہ کے بارے میں آپ کو کیا معلوم ہے؟

            پس منظر  میں تعارف موجود ہے۔

 

بے روزگاری نے یہ دکھائی ہے مفلسی              کوٹھے کی چھت نہیں ہے، یہ چھائی ہے مفلسی

دیوارو  در کے بیچ سمائی ہے یہ مفلسی                  ہر گھر میں اس طرح سے بھر آئی ہے مفلسی

پانی کا ٹوٹ جاوے ہے جوں ایک بار بند

13:     پورے بند کو مدنظر رکھتے ہوئے  بند میں موجود صنعت کی وضاحت کریں۔ نیز ایک شعری مثال لکھیں

کلام میں ایک لفظ یا چیز کی مناسبت سے دیگر ایسی اشیا کا ذکر کرنا جن کی آپس میں کوئی نسبت ہو، مگر یہ نسبت تضاد کی نہ ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتی ہے۔ اس بند میں “کوٹھے،چھت، دیوار، در، گھر” کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے کیوں کہ سب چیزوں کا تعلق مکان/گھر سے ہے۔

            ؎           خوشبو سے ان گلوں کی، ہوا دشت باغ باغ             غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

14:     اس بند میں شاعر غربت کا نقشہ کس طرح کھینچ رہے ہیں؟

15:     شاعر اس بند میں آگرہ  کی عوام کی کیا حالت بیان کر رہے ہیں؟

16:     غربت کی وجہ سے گھروں کی کیا کیفیت ہے؟

شاعر اس بند میں بے روزگاری کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب تک گھر سلامت رہتے ہیں، لوگوں کی اندرونی حالت اور غربت کا بھرم رہتا ہے، مگر جب  چھت، دروازہ  یا دیوار گرتے ہیں تو مفلسی کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ چوں کہ گھر والوں کے پاس، گھر کی مرمت کے پیسے بھی نہیں  ہوتے، اور گھر کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے باہر کے لوگوں کو معلوم  ہو جاتا ہے کہ ان کی معاشی حالت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آگرہ کے عوام غربت کی وجہ سے اپنے گھروں کی مرمت کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

17:     کوٹھے کی چھت کے نہ ہونے سے مفلسی کس طرح نظر آتی ہے؟

کوٹھے کی چھت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مکین کے پاس اتنے پیسے بھی  نہیں کہ وہ اپنے کوٹھے کی چھت کی مرمت کروا سکے او ر خود کو موسم کے شدید اثرات سے بچا سکے، باہر کے لوگ مکان کی چھت نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ جاتے ہیں کہ مکان کے مالک کے پاس پیسے نہیں، اس طرح ان کی مفلسی نظر آ  جاتی ہے۔

18:     در و دیوار کے بیچ مفلسی کے سمانے سے کیا مراد ہے؟

در و دیوار کے بیچ مفلسی سمانے سے یہ مراد ہے کہ  لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ  وہ اپنے گھروں کی مرمت کروا سکیں، یہی وجہ ہے کہ ٹوٹے در و دیوار بتا رہے ہیں کہ گھر والوں کی مالی حالت کیا ہے۔

19:     گھروں میں مفلسی کس طرح آ چکی ہے؟

            جواب 16

20:     ا س بند میں تشبیہ کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس بند میں شاعر آگرہ کے عوام کی غربت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ جس طرح  دریا کا بند ٹوٹنے پر سیلابی پانی پورے کا پورا گاؤں بہا لے جاتا ہے، اسی طرح غربت نے پورے آگرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر گھر میں مفلسی کاڈیرہ ہے۔

21:     اس بند میں موجود ارکانِ تشبیہ کی نشان دہی تشبیہ کی تعریف کرتے ہوئے کریں۔

            مشبہ:                            مفلسی کی کیفیت/ مفلسی کی حالت/ آگرہ میں غربت کی حالت

            مشبہ بہ:                         پانی کے بند کا ٹوٹنا

            حرفِ تشبیہ:                    اس طرح، جوں

            وجہ تشبیہ:                       آگرہ کے لوگوں کی مفلسی

            غرضِ تشبیہ:                    آگرہ کے لوگوں کی غربت کا نقشہ کھینچنا

 

صراف، بنیے، جوہری اور سیٹھ ساہوکار            دیتے تھے سب کو نقد، سو کھاتے ہیں اب ادھار

بازار میں اڑے ہے پڑی خاک بے شمار             بیٹھے ہیں یوں دکانوں میں اپنے دکان دار

جیسے کہ چور بیٹھے ہوں قیدی قطار بند

 

22:     پہلے شعر میں صنعت تضاد کے علاوہ کون سی صنعت ہے؟ تعریف کریں اور شعری مثال تحریر کریں

پہلے شعر میں صنعت تضاد کے علاوہ صنعت مراعات النظیر ملتی ہے کیوں کہ یہاں استعمال کردہ الفاظ “صراف، بنیے، جوہری،ساہو کار، نقد، ادھار” کا تعلق بازار اور کاروبار سے ہے۔ اس بند میں مزید الفاظ “بازار،دکانوں، دکان دار” بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔شعر میں ایسے الفاط کا آنا جن میں  تضاد کے علاوہ کوئی مناسبت ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتی ہے۔

؎           خوشبو سے ان گلوں کی ہوا  دشت باغ باغ                          غنچے کھلے، ہرے ہوئے بلبل کے دل کے داغ

؎           ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیرے خالی                              نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل

23:     پہلے شعر میں کس طرح  صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے؟

پہلے شعر میں “نقد اور ادھار” ایک دوسرے کے متضاد الفاظ ہیں اور شعر میں متضاد الفاظ کا ستعمال صنعت تضاد کہلاتا ہے۔ اس لیے یہاں “نقد،ادھار” کی صورت میں صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔

24:     دوسرے مصرعے میں تضاد کے علاوہ کون سی صنعت ہے؟

دوسرے مصرعے میں “ادھار کھانا ” کی صورت میں محاورا ہے اور شعر میں محاورے کا استعمال صنعت ایراد المثل کہلاتا ہے۔ اس لیے اس مصرعے میں تضاد کے علاوہ ایراد المثل موجود ہے۔

25:     تیسرے مصرعے میں موجود صنعت کی تعریف کریں، نیز دو شعری مثالیں تحریر کریں

            تیسرے مصرعے میں “خاک اڑنا” کی صورت میں صنعت ایراد المثل ہےکیوں کہ یہ محاورہ ہے۔

؎           خوشبو سے ان گلوں کی ہوا دشت باغ باغ              غنچے کھلے، ہرہوئے بلبل کے دل کے داغ

؎           نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو                کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

26:     اس بند میں تشبیہ کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

اس بند میں شاعر  ویران بازاروں میں دکان داروں کے بیٹھنے کے منظر کو بیان کرتے ہوئے اسے جیل میں موجود قیدیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں  کہ جس طرح جیل میں  چوری کے قیدیوں  کوقطار کی صورت میں بٹھایا جاتا ہے ویران بازار میں بیٹھے ہوئے دکان دار بھی اسی طرح نظر آ رہے ہیں۔ (یعنی جیل میں قیدیوں کو بطورِ سزا قطاروں میں بٹھایا جاتا ہے اور مختلف قسم کی مشقت لی جاتی ہے، یا ان کی تعداد کی گنتی کرنے کے لیے بھی قطاروں میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ آگرہ کے ویران بازاروں میں صرف دکان دار بیٹھے ہوئے ہیں کیوں کہ گاہک  نہیں ہیں۔ اس لیے محسوس ہوتا ہے جیسے بازاروں میں جیل کے قیدیوں کو قطار کی صورت میں بٹھایا گیا ہے۔)

27:     ارکان تشبیہ نکالیں

            مشبہ:                            دکان دار

            مشبہ بہ:                         قیدی

            حرف تشبیہ:                      یوں ، جیسے کہ

            وجہ تشبیہ:                       دکان داروں کی حالت ، بازار کی ویرانی

            غرض تشبیہ:                     کاروبار کا نہ ہونا ، بازار کا  ویران ہونا

28:     کون ادھار کھاتا ہے اور کیوں؟

وہ کاروباری حضرات یعنی سیٹھ، بنیے، ساہو کار، جوہری، جو پہلے اتنے مال دار ہوتے تھے کہ لوگوں کو ادھار دیا کرتے تھے، مگر اب کاروبار کی تباہی اور مرہٹوں  کی لوٹ مار  نے یہ حال کر دیا ہے کہ آگرہ کا امیر اور کاروباری طبقہ بھی ادھار کھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔

 

29:     بازار میں خاک کیوں اڑ رہی ہے؟

کیوں کہ آگرہ  میں غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں، جب لوگوں کے پاس کھانے کا سامان نہیں تو بازار سے خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ بازاروں میں خاک اڑ رہی ہے، یعنی بازار ویران ہو چکے ہیں۔

30:     دکان داروں کی  کیا کیفیت بیان کی جا رہی ہے؟

            جواب: 26 + 28

31:     اس بند میں بازار کی ویرانی کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، اپنے الفاظ میں تحریر کریں

            جواب 30

 

محنت سے ہاتھ پاؤں کی کوڑی ہاتھ نہ آئے          بے کار کب تلک کوئی قرض اور ادھار کھائے

دیکھوں جسے وہ کرتا ہے رو رو کے ہائے ہائے                 آتا ہے ایسے حال پہ رونا ہمیں تو ہائے

دشمن کا بھی خدا نہ کرے کاروبار بند

 

32:     اس بند کے تناظر میں آگرہ کی  عوام کی کیا حالت سامنے آتی ہے؟

اس بند کے تناظر میں آگرہ کے عوام کی معاشی حالت بہت بری  ہے۔ جب کہ ہر جانب  لوٹ مار اور غربت  کا سماں ہے تو محنت کرنے کے باوجود بھی لوگوں کا گزارا نہیں ہو رہا۔ کام کروانے والے کے پاس بھی دینے کے لیے پیسوں کی کمی ہے، یہی وجہ ہے کہ محنت زیادہ اور صلہ کم مل رہا ہے۔ ہر کوئی حالات کا رونا رو رہا ہے۔ اس عالم میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ کبھی دشمن پر بھی ایسے برے دن آئیں۔

33:     محنت سے ہاتھ پاؤں کی کوڑی ہاتھ نہ آنے سے کیا مرااد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ جتنی مرضی محنت کر لیں، غربت اور لاچارگی کا یہ عالم ہے کہ اتنی محنت کے باوجود  گزارا مشکل ہے کیوں کہ غربت  کی وجہ سے مزدوری کی قدر بھی کم ہو چکی ہے۔

34:     پہلے شعر میں موجود  صنعتوں کے نام تحریر کریں

پہلے شعر میں “قرض ، ادھار ” کی صورت میں تضاد، جب  کہ ”  محنت، ہاتھ پاؤں، کوڑی، قرض، ادھار” کی صورت میں مراعات النظیر  ہے کیوں کہ ان سب کا تعلق مزدور سے ہے۔

35:     رو رو کے ہائے ہائے کرنا سے کیا مراد ہے؟

اس سے یہ مراد ہے کہ آگرہ کے حالات اتنے برے ہیں کہ  کیا امیر، کیا غریب، ہر کوئی حالات کے ہاتھوں مجبور ہےاور حالات کا رونا رو رہا ہے۔ کسی ایک کے چہرے پر فرسودگی یا اطمینان نہیں بل کہ ہر کوئی فکر مند نظر آتا ہے۔

36:     تیسرے مصرعے میں موجود صنعت کی نشان دہی کرتے ہوئے دو شعری مثالیں تحریر کریں

            تیسرے  مصرعے میں الفاظ “رو،رو” اور “ہائے، ہائے” کی تکرار ہے۔ اس لیے یہاں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے۔

            مثالیں: سوال  22

37:     شاعر کو  کیوں رونا  آ رہا ہے؟

شاعر کو آگرہ کے عوام کی بے بسی اور بری حالت پر رونا آ رہا ہے کہ ہر کوئی غربت اور برے حالات سے پریشان ہے اور دور دور تک آسانی کا نام و نشان نہیں۔

38:     شاعر کیا  دعا کر رہا ہے؟

شاعر  بتا   رہا ہے کہ آگرہ کے حالات اتنے برے ہیں کہ الفاظ میں بیان نہیں  کیے جا  سکتے۔  انسانی نفسیات  ہے کہ انتہائی برے اور سخت حالات کی صورت میں اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسے حالا ت دشمن پر بھی نہ آئیں اور اکثر یہ کلمہ سننے کو ملتا ہے کہ ، اللہ نہ  کرے دشمن کے ساتھ ایسا ہو۔ اس بند  کے آخر میں نظیر اکبر آبادی بھی یہی بات کرتے ہوئے دعا کر رہے ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ کبھی دشمن  پر بھی ایسے برے حالات آئیں۔

 

اس شہر کے فقیر بھکاری جو ہیں تباہ                 جس گھر میں جا سوال وہ کرتے ہیں خواہ مخواہ

بھوکے ہیں کچھ بِھجائیو بابا خُدا کی راہ               واں سےصدا یہ آتی ہے: “پھر مانگو” جب تو آہ

کرتے ہیں ہونٹ اپنے وہ ہو شرمسار بند

39:     شہر کے فقیروں اور بھکاریوں کی کیا حالت بیان کی گئی ہے؟

40:     اس شعر میں “پھر مانگو”  کا کیا معنی ہے؟

شہر کے فقیروں کی حالت یہ بیان کی جا رہی ہے کہ  جب باقی لوگ متاثر ہو چکے ہیں تو فقیروں کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ وہ جس بھی گھر میں سوال کرتے ہیں ہوان سے یہی جواب ملتا  ہے کہ  “پھر مانگو”یعنی ابھی ہمارے پاس کچھ نہیں،   بعد میں جب ہوا دے دیں گے۔

41:     فقیر سوال کرتے وقت کیا بولتے ہیں؟

42:     فقیر مانگنے کی کیا وجہ بتاتے ہیں؟

فقیر مانگنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ  وہ بھوکے ہیں اور کھانے کو کچھ نہیں، اس لیے کچھ کھانے کو دے دیں۔

43:     چوتھے مصرعے میں “واں” کس کو  کہاجا رہا ہے؟

چوتھے مصرعے میں “واں” سے مراد وہ گھر ہے جہاں کوئی فقیر مانگنے جاتے ہیں۔

44:     فقیر کیوں شرمندہ ہوتے ہیں؟

فقیر اس لیے شرمندہ ہوتے ہیں کہ وہ جس گھر سے مانگنے  گئے ہیں،  ان کے پاس اپنے کھانے کو  بھی کچھ نہیں،لہذا الٹا مانگ کر ان کی پردہ پوشی کا بھرم فاش کر  کے انھیں بھی شرمندہ کر دیا ہے۔

45:     اس بند میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے؟

            اس بند میں “فقیر، بھکاری، سوال کرنا” کی صورت میں پہلے شعر میں صنعت مراعات النظیر  ہے۔ جب کہ دوسرے شعر میں “بھوکے، بھجائیو، پھر مانگو” کی صورت میں بھی مراعات النظیر ہے کیوں کہ ان کا تعلق فقیروں کے الفاظ اور  جملوں سے ہے جو  وہ ادا کرتے ہیں، یا انھیں سننے کو ملتے ہیں۔

 

کیا چھوٹے کام والے، کیا پیشہ ور نجیب              روزی کے آج ہاتھ سے عاجز  ہیں سب غریب

ہوتی ہے بیٹھے بیٹھے جب آ شام عنقریب             اٹھتے ہیں  سب دکان سے کہہ کر  کہ یا نصیب

قسمت ہماری ہو گئی بے اختیار بند

 

46:     روزی کے ہاتھوں کون کون عاجز ہیں؟

            روزی کے ہاتھوں ہر پیشہ وار کاروباری اور  علاقے کا معزز انسان عاجز ہے، یعنی غربت اور برے حالات  نے ہر انسان اور ہر شعبۂ زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔

47:     شام کے وقت دکان داروں کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟

48:     قسمت کے بند ہونے سے کیا مراد ہے؟

49:     دکان دار اپنی دکانوں سے کس حالت میں اٹھتے ہیں؟

            شام کے وقت تک جب کاروبار نہیں ہوتا، کوئی گاہک نہیں آتا تو  دکان دار اپنی دکانوں سے مایوسی کی حالت میں اٹھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، قسمت ہی بند ہو چکی ہے ۔ یہاں قسمت کے   بند ہونے سے مراد بری قسمت یا کاروبار کا نہ چلنا مراد ہے۔

50:     دوسرے شعر میں کون سی صنعت ہے ،شعری مثالوں سے وضاحت کریں

            دوسرے شعر میں “بیٹھے بیٹھے” کی صورت میں صنعت تکرار ہے۔ شعر میں الفاظ کا دہرایا جانا صنعت تکرار کہلاتا ہے۔

؎           ذرے ذرے کی شہادت  کہ خدا ہے موجود            پتے پتے کو  ہے صانع کی صفت کا اقرار

؎           خوشبو سے ان گلوں  کی ہوا دشت باغ باغ              غنچے کھلے، ہر ہوئے بلبل کے دل کے داغ

51:     اس بند میں مراعات النظیر کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

            کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جانا جن میں باہم کوئی نسبت ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتا ہے۔ اس بند میں “چھوٹے کام والے، پیشہ ور، روزی، غریب،دکان” جیسے الفاظ کا تعلق کاروبارِ زندگی سے ہے۔ ان الفاظ کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

 

ہے کون سا  وہ دل جسے فرسودگی نہیں              وہ گھر نہیں کہ روزی کی نابودگی نہیں

ہر گز کسی کے حال میں بہبودگی نہیں               اب آگرے کے نام کو آسودگی نہیں

کوڑی کے آگے ایسے ہوئے راہ گزار بند

52:     اس بند میں شاعر کیا کہہ رہے ہیں؟

            اس بند میں شاعر آگرہ کے حالا ت کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ  وہ آگرہ جو کبھی امن و سکون اور خوش حالی کی علامت تھا اب وہاں خوش حالی اور امن و سکون کا نام و نشان تک نہیں۔ جاٹوں اور  مرہٹوں کی لوٹ مار نے اسے  تباہ و  برباد کر رکے رکھ دیا ہے، لہٰذا یہاں کے لوگ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے ہیں۔

53:     روزی کی  نابودگی نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟

            اس سے مراد  یہ ہے کہ  ہر گھر میں کھانے پینے کو کچھ باقی نہیں رہا۔ جس گھر میں دیکھو غربت اور  بے روزگاری اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

54:     آگرے کے نام کو آسودگی نہ ہونے سے شاعر کیا مراد لے رہے  ہیں؟

            جواب نمبر 52

ہے میری حق سے اب یہ دعا شام اور سحر           ہو آگرے کی خلق پہ پھر  مہر کی نظر

سب کھاویں پیویں یاد رکھیں اپنے اپنے گھر          اس ٹوٹے شہر پر بھی الہی =تو فضل کر

کھل جاویں ایک بار تو سب کاروبار بند

55:     شاعر کی کیا دعا ہے؟

            شاعر اللہ تعالیٰ  سے دعا کر رہے ہیں کہ وہ اب تباہ حال شہر پر کرم کی نظر کریں، جن لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں یا بند ہو  چکے ہیں، وہ پھر سے جاری ہو  جائیں۔ کسی کو کھانے پینے کا مسئلہ نہ ہو۔

56:     اس بند موجود صنعت تضاد کی تمام مثالوں کی نشان دہی کریں

                        اس بند میں “شام،سحر” ، “کھاویں، پیویں” اور “کھل،بند” کی صورت میں صنعت تضاد موجود ہے۔

57:     ٹوٹے =شہر کس کو اور کیوں کہا جا رہا ہے؟

            ٹوٹے شہر سے مراد اجڑا ہوا یا تباہ شدہ شہر ہے۔ یہ آگرہ  کو کہا جا رہا ہے کیوں  کہ  جاٹ اور مرہٹے اس پر حملہ  آور ہوئے، اور لوٹ مار اور تباہی و بربادی کا وہ سلسلہ چلا کہ کوئی بھی انسان اس سے محفوظ نہ رہا۔  اسی وجہ سے اس شہر کو ٹوٹا شہر کہا جا رہا ہے۔

58:     “حق” کس کو کہا جا رہا ہے؟ نیز  مہر کی نظر کون سی ہوتی ہے؟

            اس بند میں حق سے مراد اللہ تعالی کی ذات مبارکہ ہے کہ، وہ اس بکھرے اور اجڑے شہر پر مہر، یعنی اپنی شفقت، مہربانی اور کرم کی نظر کرتے ہوئے اس کے حالا ت درست کر  دیں۔

59:     اس نظم کا نظم شہر آشوب کیوں ہے؟

60:     یہ نظم شہر آشوب ہے، شہرِ آشوب کی تعریف کریں۔

            اس نظم کا نام شہرِ آشوب اس لیے ہے کیوں کہ ، شہرِ آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جو کسی  شہر یا ملک کے برے حالات ، وہاں کی تباہی و بربادی، فتنہ فساد یا عوام کی بد حالی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نصاب میں شامل اس شہرِ آشوب میں آگرہ کے برے حالات کا ذکر ملتا ہے۔

 

حوالہ کے اشعار:

؎           اک میں ہوں کہ  اس آشوب نوا میں چپ ہوں                   ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

؎           سب امیدیں مرے  آشوبِ تمنا تک تھیں                         بستیاں ہو گئیں غرقاب  تو دریا اترا

؎           کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگرہو گئے                                 خاک میں جب مل گئے، دونوں برابر ہو گئے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!