نظم نعت

نعت

نوٹ: آیات،حدیث کے حوالہ جات سوالات میں ہی درج کر دیے گئے ہیں۔ وہی تشریح میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے، سب سے افضل

میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل

1:      سب سے اعلیٰ کس کی سرکار ہے؟

2:      سب سے افضل کس کی سرکار ہے؟

سب سے اعلیٰ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے اور آپ ﷺ ہی کی  ذات سب سے افضل ہے۔ اس کی گواہی خود قرآن مجید کی کثیر آیات دیتی ہیں۔

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ(القلم:4)     

اور بے شک آپ (ﷺ)اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز  ہیں۔ (ترجمہ: فہم القرآن)

اوپر کی آیت آپ ﷺ کے اخلاق کی گواہ ہے اور اسی کی وضاحت خود آپﷺ کرتے ہیں کہ وہ تمام انسانوں میں سب سے بہترین اخلاق پر فائز ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ(الانبیا: 107)

اور ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(ترجمہ:جونا گڑھی)

 

3:      اس شعر میں سرکار سے  کون مراد ہیں؟

یہ شعر نعت سے لیا گیا ہے اور نعت ایسی صنفِ سخن کو کہتے ہیں جس میں آپﷺ کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور کے فضائل، معجزات و اخلاقِ حسنہ کا ذکر ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں سرکار سے مراد آقا کریم حضرت محمد ﷺ ہیں۔

4:      دوسرے مصرع کی وضاحت کریں

اس مصرع میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میرے کُل ایمان کا خلاصہ  آپﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے محبت  اور ان کی اطاعت ہے، یعنی میرے ایمان کی بنیاد، میرے تمام اعمال اور اطاعت کا دارومدار آپﷺ سے محبت پر ہے۔

          ’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ‘‘(النساء:۸۰)             

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس   نے  اللّٰہ کا حکم مانا۔

5:      اس شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں

اس شعر میں “مفصل ، مجمل” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال کی گئی ہے۔ مفصل تفصیلی کو، جب کہ مجمل سرسری یا خلاصہ  کو کہتے ہیں اس لیے یہ متضاد الفاظ ہیں۔ شعر میں متضاد الفاظ کا استعمال صنعت تضاد کہلاتا ہے۔

 

گلِ خوش رنگ رسولِ مدنی و عربی

زیبِ دامانِ ابد، طرۂ دستارِ ازل

6:      یہاں شاعر گلِ خوش رنگ کس کو اور کیوں کہہ رہا ہے؟

یہاں شاعر آپﷺ کی ذات کو گلِ خوش رنگ یعنی خوب صورت رنگ کا پھول قرار دے رہا ہے۔ اس  کی وجہ آپﷺ کا اخلاق و کردار ہے۔ جس طرح پھول خوب صورت ہوتا ہے اور اس کی خوشبو ہوتی ہے جو کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، اسی طرح آپﷺ کے اخلاقِ  حسنہ کی خوشبو سے لوگ آپﷺ کی طرف متوجہ ہوئے۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ (آل عمران: 159)

آپ (ﷺ)اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم مزاج ثابت ہوئے اگر آپ  (ﷺ)ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ (ﷺ) کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ (ترجمہ: فہم القرآن)

 

7:      آپ ﷺ کو رسولِ مدنی  و عربی کیوں کہا جا رہا ہے؟

کسی بھی انسان کو اس کے علاقے کی نسبت سے  بھی پکارا جاتا ہے، اسے صفتِ نسبتی کہتے ہیں۔ چوں کہ آپﷺ کا تعلق  مدینہ منورہ سے تھا اور آپ کا مزار مبارک بھی وہیں ہے اور آپ ﷺ عربی بھی تھے، اسی نسبت سے آپﷺ کو رسولِ مدنی و عربی کہا جا رہا ہے کہ اے مدینہ اور عرب کے رہنے والے رسول ﷺ۔

 

8:      دوسرے مصرعے میں کس طرح صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے؟

شعر میں الٹ معانی کے حامل الفاط کا استعمال صنعت تضاد کہلاتا ہے۔  دوسرے مصرعے میں “ازل،ابد” متضاد الفاط ہیں۔ لہٰذا یہاں ازل  اور ابد  کی صورت میں صنعت تضاد ہے۔

9:      طرۂ دستارِ ازل سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

طرہ سے مراد پگڑی کا شملہ ہے جسے عزت کی علامت کہا جاتا ہے۔ اس شعر کے تناظر میں طرۂ دستارِ ازل سے مراد وہ عزت و رتبہ ہے جو اللہ تعالی نے کائنات کی ابتدا سے ہی آپﷺ کو عطا کر دیا تھا۔

سورہ الانشراح: 4

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ: اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کردیا۔(ترجمہ کنزالعرفان)

10:     دوسرے مصر عے   کا مفہوم بیان کریں

دوسرے شعر سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ آپ ﷺ کو کائنات کی ابتدا سے جو عزت و  رتبہ ملا وہ ہمیشہ قائم رہے گا اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو گی۔ باقی انسان، ان کی عزت، ان کے رتبے، سب فنا ہو گیا مگر آپﷺ کا نام و عزت نہ صرف اب تک قائم ہے بل کہ قیامت کے دن سب پر عیاں کر دی جائے گی۔

؎           کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں                    یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

11:    پہلے شعر میں موجود استعارا کی وضاحت کریں

پہلے شعر میں لفظ گل کی صورت میں آپﷺ کی ذات مبارکہ کے لیے استعارا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس طرح پھول کی خوب صورتی، اس کا رنگ اور خوشبو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور انھیں فرحت عطا کرتی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے اخلاق ، کردار اور حسن نے نہ صرف لوگوں  کو اپنی طرف متوجہ کیا بل کہ انھیں پاکیزہ بھی کیا۔ یوں شاعر پھول کی صفات آپﷺ میں بیان کر رہا ہے۔

12:     ارکانِ استعارا کے نام لکھیں اور  شعر میں موجود ارکانِ استعارا کی وضاحت کریں

ارکانِ استعارا مندرجہ ذیل ہیں: مستعار لہ، مستعار منہ، وجہ جامع

اس شعر میں ارکانِ استعارہ اس طرح ہیں:

مستعار لہ:             آپ ﷺ، رسولِ مدنی عربی ﷺ

مستعار منہ:          گل، گلِ خوش رنگ

وجہ جامع:             جس طرح پھول کی خوشبو  کی طرح آپﷺ کے اخلاق تھے۔

اوجِ رفعت کا قمر، نخلِ دو عالم کا ثمر

بحرِ وحدت کا گہر، چشمۂ کثرت کا کنول

13:     پہلے مصرعے میں موجودصنعت کی تعریف کرتے ہوئے مثال دیں ۔

اس شعر میں گنتی کا لفظ ‘دو’ استعمال ہوا ہے اور شعر میں گنتی کا استعمال کیا جانا صنعت سیاقۃ الاعداد کہلاتا ہے۔

؎           عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن                    دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں        

14:     یہاں شاعر نخلِ دو عالم کا ثمر سے کیا مراد لے رہا ہے؟

اس شعر میں شاعر نخلِ دو عالم سے مراد اس کائنات کو لے رہے ہیں۔ کسی بھی درخت کو بونے کے بعد اس کا نتیجہ اس کی پیداوار یا اس کا پھل ہوتا ہے۔ یہاں شاعر اس حدیثِ قدسی کی طرف اشارا کرتے نظر آتے ہیں جس کے مطابق اگر اللہ تعالی نے آپﷺ کو نہ پیدا کرنا ہوتا تو اس کائنات کو نہ پیدا کرتے۔ گویا آپﷺ ہی اس کائنات کا حتمی نتیجہ ہیں جس کے لیے یہ ہنگامۂ عالم پیدا کیا گیا ہے۔

لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ.  ’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘

1.   عجلوني، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 2123

2.    آلوسي، تفسير روح المعاني، 1: 51

15:     دوسرے شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور شعری  مثال سے  وضاحت کریں

دوسرے شعر میں صنعت سیاق الاعداد کے علاوہ “وحدت، کثرت” کی صورت میں صنعت تضاد بھی ہے۔ شعر میں ایسے الفاظ کا آنا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں، صنعت تضاد کہلاتا ہے۔

            ؎           زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

16:     آپﷺ کس طرح بحرِ وحدت کا گہر ہیں؟

بحرِ وحدت سے مراد توحید پرستی اور اللہ تعالی کی پہچان ہے۔ آپﷺ کی آمد سے پہلے شرک عام تھا، آقا =نے دنیا بھر میں توحید کی دعوت عام کی۔ اس وقت بھی اسلام ہی توحید پرست مذہب کے طور پر باقی ہے۔ گویا اب کہیں بھی توحید ہے تو اس کا اصل گوہر آپ ﷺ کی ذات مبارکہ ہی ہے۔

17:     آپﷺ کے چشمۂ کثرت کا کنول ہونے سے کیا مراد ہے؟

کنول کو تمام پھولوں میں امتیاز حاصل ہے اور اس کی خوب صورتی بے مثل ہے۔  یہ مقدس پھول تصور کیا جاتا ہے اور اس کے پھول پانی کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں۔ تمام نیک لوگوں میں آپ ﷺ کی مثال سب سے الگ، ممتاز اور جدا ہے،جس طرح  کنول کو پھولوں پر امتیاز حاصل ہے اسی طرح آپ ﷺ کی مثال نیک اور مقرب لوگوں میں کنول کی سی ہے۔

؎      یا صاحب الجمال و یا سید البشر                      من وجه المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ                    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

ترجمہ:   اے صاحب الجما لﷺ اور اے انسانوں کے سردار ﷺ  آپ ﷺ کے رخِ انور سے چاند چمک اٹھا

آپ ﷺ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں                  قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ﷺ ہی بزرگ ہیں

(شاہ عبدالحق محدث)

ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیرے خالی

نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل

18:     شعر میں موجود اصناف سخن کی تعریف لکھیں

            اس شعر میں مندرجہ ذیل اصناف سخن پائی جا رہی ہیں:

شعر:     شعر سے مراد وہ کلامِ موزوں ہے جس میں کوئی بات مکمل کی جا رہی ہو۔ اس میں عموما قافیہ و ردیف پائی جاتی ہے۔

قطعہ:     قطعہ ایسی مختصر نظم کو کہتے ہیں جو کم از کم چار مصرعوں پر مشتمل کی جاتی ہے اور اس میں بات مکمل کی جاتی ہے۔

قصیدہ:    قصیدہ ایسی شعری صنف ہے جس میں کسی شخصیت کی تعریف کی جاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں شاعر انعام حاصل کرنے کے لیے  بادشاہوں، امرا اور وزرا کی شان میں قصیدہ لکھتےتھے۔

غزل:     غزل باقی اصناف سخن سے منفرد ہے۔ اس کا ہر شعر الگ الگ معانی کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں موضوع کو ئی قید نہیں۔ مطلع کی شرط ہے۔ غزل مردف (ردیف والی) اور غیر مردف (بغیر ردیف کے) بھی ہو سکتی ہے بغیر مقطع کے بھی ہو سکتی ہے۔

19:     شاعر کی کیا تمنا ہے؟

شاعر کی تمنا ہے کہ اس کی شاعری نعتیہ ہو۔ وہ جس قسم کی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کریں، اس میں نعت کا عنصر شامل ہو، چاہے یہ شاعری شعر کی صورت میں ہو یا قطعہ، قصیدہ اور غزل کی صورت میں۔

20:      صنعت مراعات النظیر کی تعریف کریں، نیز بتائیں اس  شعر میں یہ صنعت کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

شعر میں ایسے مختلف الفاظ استعمال کرنا جن میں کوئی خاص نسبت پائی جاتی ہو مگر یہ نسبت تضاد و تقابل کی نہ ہو۔ اس شعر میں “شعر، قطعہ، قصیدہ اور غزل” کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

21:     اس شعر میں صنعت جمع کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟ وضاحت کریں؟

شعر میں مختلف قسم کی اشیا یا الفاظ کو ایک ہی حکم میں داخل کرنا یا ایک چیز سے جوڑنا صنعت جمع کہلاتا ہے۔ اس شعر میں موضوعی لحاظ سے شعر، قطعہ، قصیدہ اور غزل الگ الگ ہیں۔ مگر شاعر ان کو اپنی ایک خواہش سے جوڑ رہا ہے کہ، تمام اصناف نعت سے خالی نہ رہیں۔

 

ہو مرا ریشۂ امید، وہ نخلِ سر سبز

جس کی ہر شاخ میں ہو پھول، ہر اک پھول میں پھل

22:      اس شعر میں موجود صنعت مراعات النظیر اور  تکرار کی وضاحت کریں

اس شعر میں ریشہ، نخل، سرسبز، شاخ، پھول، پھل تمام کا تعلق درخت سے ہے۔ ان الفاظ کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

اس شعر میں لفظ “پھول” کے دہرائے جانے کی صورت میں صنعت تکرار استعمال ہو رہی ہے۔

23:     اس شعر میں شاعر کیا تمنا کر رہا ہے؟ / شاعر کی کیا تمنا ہے؟

اس شعر میں شاعر یہ تمنا کر رہا ہے کہ میری امید اور دعا انتہائی مختصر سی ہے۔ اس کی مثال ایک ریشے کی سی ہے مگر اللہ تعالی کے فضل و رحمت سے امید ہے کہ وہ قلیل آرزو ایک ریشے سے نمو (نشونما) پاتے ہوئے ایک بڑا درخت بن کر ایسے پھول لائے گی جس کا ہر پھول پھل دار ہو گا۔ گویا شاعر کی  تمنا چھوٹی ہے مگر اسے امید ہے کہ اس تمنا   کا صلہ  توقع سے بڑھ کر ملے گا۔

24:     اس شعر میں شاعر کس طرح اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا ہے؟

اس شعر میں شاعر اپنی امید کی عاجزی کی صورت میں کہہ رہا ہے کہ اس کی امید کی مثال ایک حقیر ریشے کی سی ہے مگر اسے توقع ایسے صلے کی ہے جو اس کی سوچ سے بڑھ کر ہو اور یہی نعتیں اس کے لیے آخرت میں اس طرح مددگار ہوں کہ اسے خود یقین نہ آ رہا ہو۔

25:     شاعر کے امید کو نخلِ سر سبز کہنے سے کیا مراد ہے؟

نخلِ سر سبز ایسے درخت کو کہتے ہیں جس جو پھلتا  پھولتا ہے اور ا س پر پھل لگتے ہیں۔ یہاں شاعر بھی اپنی قلیل امید کو اسی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میری امید تو قلیل ہے مگر رب تعالیٰ اسے بڑھا کر وہ بار آور درخت بنا دیں جس میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہے۔

 

رخِ انور کا ترے دھیان رہے بعدِ فنا

میرے ہمراہ چلے راہِ عدم میں مشعل

26:       شاعر یہاں  رخِ انور سے کیا مراد لے رہا ہے؟

یہاں شاعر رخِ انور سے مراد آپﷺ کا چہرہ مبارک لے رہا ہے۔ آپﷺ کے چہرۂ انور کے حوالے سے قرآن مجید سراجا منیراجیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ سورہ احزاب میں ارشاد ہے:

يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْـرًا (45)

اے نبی(ﷺ) ہم نے آپ (ﷺ)کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

وَدَاعِيًا اِلَى اللّـٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْـرًا (46)

اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چراغ روشن بنایا ہے۔

27:     شاعر کی مرنے کے بعد کیا خواہش ہے؟ / شاعر مرنے کے بعد کس دھیان میں رہنا چاہتا ہے؟

شاعر کی مرنے کے بعد خواہش ہے کہ اس کے ہمراہ آپ ﷺ کی نعتوں اور ان کی راہ اطاعت میں گزاری گئی زندگی مشعل بن کر ان کا ساتھ دے اور  یہی عقیدت ان کی آخرت کا سرمایہ بن جائے۔

28:     یہاں شاعر “مشعل” سے کیا مراد لے رہا ہے؟

اس شعر میں شاعر مشعل سے مراد آپﷺ کے روشن چہرے اور اس کے دھیان کو لے رہا ہے۔ شاعرکہہ رہا ہے کہ نہ صرف اس کی شاعری بل کہ اس کی زندگی بھی آپﷺ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق گزرے اور یہی زندگی روزِ حشر اس کی شاعری اور آپﷺ سے عقیدت و محبت بنے اور آخرت کی تمام منازل میں مشعل کا کام دے۔

29:     راہِ عدم میں مشعل کے ساتھ چلنے سے کیا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے؟

راہِ عدم میں مشعل  کے ساتھ چلنے سے یہ مراد لیا جا سکتا  ہے کہ شاعر کا طرزِ  زندگی اور شاعری عقیدتِ رسولﷺ سے معمور ہو اور یہی عقیدت ان کا عمل رہے۔ اسی عمل کی  روشنی ان کے لیے آخرت کی منازل و مشکلات میں مشعل کا کام دے۔

اضافی اشعار:

؎           اِس صورت نوں جان آکھاں                                       جان آکھاں کہ جانِ جہاں آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں                                جس شان تو شاناں سب بنیاں
سبحان اللہ مَا أَجْمَلكَ، مَا أَحْسَنَكَ، مَا أَکْمَلَكَ      کتھے مہر علی! کتھے تیری ثنا! گستاخ اکھیں کتھے جا اَڑیاں

؎           لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب                           گنبد آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب

 

صفِ محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح

ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ، یہ غزل

30:     شاعر حشر کے دن کس کا ساتھ چاہتا  ہے؟

شاعر حشر کے دن آپﷺ کا ساتھ چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ ﷺ  کے لیے لکھی گئی نعتیں اس کا سرمایۂ آخرت بن  جائیں اور اسے ان کی برکت سے آپ ﷺ کا ساتھ نصیب ہو جائے۔ یہی نہیں اس کی یہی نعتیں وہاں اس کے ساتھ اس کی پہچان بن کر رہیں۔

31:     شعر میں موجود صنعت کی تعریف کرتے ہوئے   شعر میں اس کے استعمال کی وضاحت کریں۔

دوسرے مصرع میں “مداح، قصیدہ، غزل” کا تعلق شاعری سے اس لیے یہ صنعت مراعات النظیر ہے کیوں کہ مداح، قصیدہ اور غزل تینوں کا تعلق شاعری سے ہے۔

32:     شاعر اپنے ساتھ کیا رکھنا چاہتا ہے  اور کیوں؟

شاعر روزِ حشر اپنے ساتھ اپنی شاعری رکھنا چاہتا ہے کیوں کہ اس کی شاعری نعتیہ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ یہی شاعری روزِ حشر اس کی پہچان بنے اور آخر کی ہر منزل میں اس کے ساتھ ہو۔ اسی کی برکت سے اسے= آُ ﷺ کی محبت اور ان کا ساتھ نصیب ہو جائے۔

33:     اس شعر میں “ترے، ترا” کون سی صنعت ہیں؟ نیز یہ الفاظ کس شخصیت کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں؟

اس شعر میں استعمال شدہ الفاظ “ترے،ترا” کا مادہ ایک ہی ہے اور شعر میں ایسے الفاط کا آنا جن کا مادہ ایک ہو، صنعت اشتقاق کہلاتے ہیں۔ یہ الفاظ آپﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور شاعر ان ﷺ کے لیے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر                              روزِ محشر عذر ہائے من پذیر

یا اگر بینی حسابم ناگزیر                                    از نگاہ مصطفےٰ پنہا ں بگیر

ترجمہ:               اے خداوندقدوس تو تو دونوں جہاں سے بے نیاز ہے اورمیں فقیرومحتاج ہوں۔ تیری بے نیازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محشر کے دن میرے عذر قبول فرما۔ اور اگرمیرا حساب لینا ضروری ہے تو (میرے محبوب) محمدمصطفیٰ ﷺ کی نظروں سے پوشیدہ لینا۔ تاکہ میرے محبوب کے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

مرکزی خیال:

                        طلبا اوپر کے مواد کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی خیال خود سے  تحریر کریں۔

شاعر کا تعارف:      آپ کا نام اور تخلص محسنؔ ہے۔  لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ چوں کہ آپ کا تعلق لکھنؤ سے تھا تو شاعری پر بھی اسی دبستان کے اثرات ہیں۔ ان کی  نعتیہ شاعری میں صداقت و خلوص  اور عقیدت ہے۔ صنائع بدائع کا حسین استعمال کرتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں مضمون کی بلندی، زبان کی رنگینی اور تشبیہات و استعارات   کا کثرت سے استعمال  اسے انفرادیت =و معنی خیز بناتا ہے۔ انھوں نے نعتوں کے علاوہ صحابہ کے مناقب پر بھی شاعری کی۔ نصاب میں شامل نعت ان کے مشہور نعتیہ قصیدے “قصیدہ مدح خیر المرسلین” سے منتخب کی گئی ہے۔ آپ کے کلیات کا نام “کلیاتِ محسن” ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!