نظم پرانا کوٹ

نظم پرانا کوٹ

 

خریدا جاڑوں میں نیلام سے پرانا کوٹ              جو پھٹ کے چل نہ سکے، یہ نہیں  ایسا نوٹ

1:      شاعر نے کب اور کیسا کوٹ خریدا؟

شاعر نے جاڑوں   یعنی  سردی کے موسم میں نیلام سے پرانا کوٹ خریدا۔

2:      شاعر کوٹ کا موازنہ کس سے کر رہے ہیں؟

شاعر کوٹ کا موازنہ پرانے نوٹ سے کر رہے ہیں ۔ ان کے مطابق   کوٹ اور پرانے نوٹ میں یہ فرق ہے  کہ پرانا کوٹ  تو  پھٹنے  کے بعد بھی چل سکتا ہے مگر پرانا نوٹ  اگر پھٹ جائے تو وہ نہیں چلتا، یعنی  اس کی قدر ختم ہو جاتی ہے

3:      پھٹے نوٹ کے بارے میں شاعر کیا کہہ رہے ہیں؟

پھٹے نوٹ کے بارے میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ پھٹنے  کے بعد وہ نہیں چلتا ، کوئی بھی دکان دار اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی حیثیت عام کاغذ کی سی ہو جاتی ہے

4:      کیا کوٹ کے پرانے ہونے سے اس کی قدر میں کمی ہو رہی ہے؟

پرانا ہونے  کے بعد کوٹ کی کی قدر میں میں کمی واقع نہیں ہوتی بل کہ اس کی اہمیت بڑھ  جاتی  ہے۔ یہ  اس کی مضبوطی ہے  کہ  اس نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔

بنا ہے  کوٹ یہ نیلام کی دکان کے  لیے              “صلائے عام ہے یارانِ نکتہ دان کے لیے”

5:      اس شعر میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی  ہے ؟تعریف کریں

6:      دوسرا مصرع واوین میں کیوں ہے؟َ

اس شعر میں شاعر نے مرزا غالب کے مصرع کو بطورتضمین  استعمال کیا  ہے،  اس لیے  یہاں صنعت  تضمین استعمال ہو رہی ہے / شعر میں کسی دوسرے شاعر کا مصرع /شعر استعمال کرنا صنعت تضمین  کہلاتا  ہے، اس کی علامت واوین (” “) ہے۔ اس شعر میں شاعر مرزا غالب کا شعر بہ طور (بطور) تضمین استعمال کر رہے ہیں۔

7:      کوٹ کس کے لیے بنا ہے؟

کوٹ نیلام کی دکان کے لیے بنا ہے، یعنی ہر کوئی استعمال کرسکتا ہے اور بالآخر پھر سے نیلام  بازار کی زینت بن جاتا ہے۔

8:      کوٹ کے نیلام کی دکان کے لیے بننے سے کیا مراد ہے؟

کوٹ کے نیلام کی دکان کے لیے بننے سے یہ مراد ہے کہ کہ جو لوگ  نیا کوٹ  خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لئے پرانا کوٹ بہترین چیز ہے ،کیوں  کہ یہ بنا ہی اس مقصد کے لئے ہے۔

9:      کس نسبت سے  تضمین (غالبؔ کا مصرع) استعمال کیا گیا  ہے؟

مرزا غالب کا مکمل شعر یوں ہے۔

؎           ادائے خاص سے  غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا                صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

جب کہ اس نظم میں  غالبؔ  کا یہ شعر بطور تضمین   استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کہ جو لوگ کوٹ خریدنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے لیے  مشورہ ہے کہ یہ کو ٹ خرید لیں۔ دوسرے معنوں میں ہر شخص کے لئے مشورہ ہے کہ وہ اس کو خرید سکتا ہے۔

بڑا بزرگ ہے یہ آزمودہ کار ہے یہ                کسی مرے ہوئے گورے کی یادگار ہے یہ

10:     کوٹ کس طرح بزرگ  ہے؟

کوٹ  اس وجہ سے بزرگ ہے کیوں کہ کوئی گورایعنی  انگریز اسے زندگی بھر استعمال کرتا رہا ہے۔  وہ اپنی زندگی گزار کر جا چکا ہے مگر اس کی یادگار یعنی یہ پرانا کوٹ باقی ہے اس لیے یہ کوٹ بزرگ ہے۔

11:    کوٹ کے آزمودہ کار ہونے سے کیا مراد ہے؟

کوٹ  کے  آزمودہ کار   ہونے سے یہ مراد ہے کہ یہ آزمایا گیا کوٹ ہے۔  ایک گورا  اسے زندگی بھر استعمال کرتا رہا ہے اگر اس میں کوئی خرابی یا کپڑا اچھا نہ ہوتا تو کب کا پھٹ کر  ختم ہو چکا ہوتا۔  یہ کوٹ ابھی تک درست حالت میں موجود ہے اس کا معنی یہ ہوا کہ کوٹ بہت مضبوط اور پائیدار ہے۔

12:     کوٹ مرے ہوئے گورے کی کس طرح یادگار ہے؟

کوٹ مرے  ہوئے گورے کی یادگار اس طرح ہے کہ گورا تو فوت ہو چکا ہے مگر اس کے بعد اس کی نشانی کوٹ کی صورت میں باقی ہے کیوں کہ وہ گورا  اسے استعمال کرتا رہا ہے۔

پرانی وضع کا بے حد عجیب جامہ ہے                پہن چکا اسے خود “واسکوڈی گاما” ہے

13:     کوٹ کس قسم کا ہے؟ / کوٹ کا   حلیہ  ( ہیئت) کیا ہے؟

کوٹ کا حلیہ یا بُنت (ڈیزائن)    پرانی نوعیت کا ہے کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیشن اور ڈیزائن بدلتے رہتے  ہیں ۔ اور نئے فیشن  کے بعد پرانا فیشن بہت عجیب لگتا ہے اس وجہ سے کوٹ میں عجیب حلیے کا ہے کیوں کہ یہ پرانی وضع کا ہے۔

14:     واسکوڈے گاما کون تھا؟

واسکوڈے گاما (واسکوڈی گاما) ایک پرتگالی بحری قزاق(سمندری ڈاکو) تھا۔ اس نے یورپ سے ہندوستان کے درمیان مختصر تجارتی راستہ ایک عرب  ملاح احمد بن ماجد کے تعاون سے تلاش کیا۔ 1469ء  میں پرتگال میں پیدا ہوا اور  1524ء  میں کوچی  (ہندوستان) میں فوت ہوا۔

15:     کوٹ  کے واسکوڈے گاما  کے پہننے سے کیا مراد ہے؟

کوٹ  کے واسکوڈےگاما کے پہننے  سے مراد یہ ہے کہ یہ کوٹ  اتنا پرانا لگتا ہے ہے گویا   واسکوڈے گاما اسے پہن کر ڈاکے مارتا رہا اور بحری جہاز لوٹتا رہا تھا۔  دوسرے معنوں میں اس مصرعے سے  مراد کوٹ کی قدامت ہے کہ یہ واسکوڈے گاما سے بھی قدیم ہے۔

 

نہ دیکھ کہنیوں پر اس کی خستہ سامانی                پہن چکے ہیں اسے ترک اور ایرانی

16:     کوٹ کو کون کون سی اقوام پہن چکی ہیں؟

شاعر کے مطابق کوٹ کو ترک اور ایرانی لوگ پہن چکے ہیں۔ جب کہ گزشتہ اشعار میں” مرے ہوئے گورے کی یادگار” کے الفاظ سے  معلوم ہوتا ہے اسے انگریز بھی پہن چکے ہیں۔

17:     کوٹ کے شاعر تک پہنچنے کا سفر بیان کریں؟

شاعر تک پہنچنے کا سفر یوں ہے کہ پہلے اسے کوئی انگریز   پہنتا   تھا، اس کے مرنے کے بعد ترک لوگ استعمال کرتے رہے ،وہاں سے یہ کوٹ ایران تک جا پہنچا  اور ایران سے سفر طے کرتے ہوئے نیلام بازار  کی مدد سے شاعر تک پہنچا۔

18:     کوٹ کہاں سے  خستہ  ہے اور کیوں؟

کوٹ کہنیوں   کے  مقام سے  استعمال کی کثرت کی وجہ سے خستہ ہو چکا ہے یعنی گِھس  چکا ہے۔

کئی جگہ وہ پھرا مثلِ “مارکوپولو”          وہ کوٹ کوٹوں کا لیڈر ہے، اس کی جے بولو

19:     مارکوپولو کون تھا؟

مارکوپولو وینس (  اٹلی)  کا باسی  تھا۔   پیدائش 1254ء اور وفات 1324ء تھی۔ یہ مشہور سیاح اور تاجر تھا اور  شاہراہ ریشم پر چین اور یورپ کے درمیان تجارت کے ساتھ ساتھ وہاں کے شہروں کی سیاحت کرتا تھا۔  ساتھ میں  سفر کے حالات لکھتا تھا۔ چنگیز خان کے پوتے  قبلائی خان  نے اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔

20:     کوٹ کو  کس سے تشبیہ دی جا رہی ہے؟

کوٹ  کو مارکو پولو سے تشبیہ دی گئی ہے کیوں کہ جس طرح مارکوپولو مختلف جگہوں پر سفر کرتا تھا اسی طرح کوٹ بھی مختلف ممالک کا سفر کر چکا ہے، جن میں گوروں کا دیس، ترکی اور ایران شامل ہیں۔

21:     شعر میں موجود ارکان تشبیہ لکھیں

            مشبہ:                 کوٹ

مشبہ بہ:              مارکوپولو

            حرفِ تشبیہ:         مثل

            وجہ تشبیہ:            سفر، کئی جگہوں پر جانا

            غرض تشبیہ:         کوٹ کا سفر بتانا، کوٹ کا ایک مقام پر نہ رکنا

22:     “کوٹ ،کوٹوں” کس طرح صنعت اشتقاق  استعمال ہو رہی ہے؟

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مادے سے بنے ہو ں، صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔  یہاں کوٹ اور کوٹوں کا   ایک ہی مادہ  ہے  اس لیے  “کوٹ، کوٹوں”کی صورت میں صنعت اشتقاق   استعمال ہو رہی ہے۔

 

 

23:     کوٹ کی جے بولنے سے کیا مراد ہے؟

جے ہندی لفظ ہے ، جے  بولنے سے مراد کسی کے لیے نعرے لگانا ہے کیوں کہ نعرے   کسی لیڈر کے لئے لگائے جاتے ہیں اور شاعر کے مطابق یہ کوٹ بھی کوٹوں  کا لیڈر ہے، اس لیے اس کے نعرے لگنے چاہئیں۔

24:     کوٹ کیوں باقی کوٹوں  کا لیڈر ہے؟

کوٹ اس لئے باقی کوٹوں  کا لیڈر ہے کیوں کہ  یہ اتنا قدیم ہے کہ مارکوپولو اور واسکوڈےگاما تک اسے  پہن چکے ہیں۔ جب کہ باقی کوٹ ختم ہو چکے ہیں، سوائے اس ایک کوٹ کے جس کے بارے میں یہ نظم لکھی گئی ہے۔

بڑا بزرگ ہے گو قلیل قیمت ہے          میاں ! بزرگوں کا سایہ بڑا غنیمت ہے

25:     شاعر کوٹ کی اہمیت کس طرح بیان کر رہے ہیں؟

شاعر کوٹ کی اہمیت اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ جس طرح   بزرگوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے ان کا موجود ہونا بھی ایک نعمت  ہے اسی طرح کوٹ بھی کوٹوں  کا بزرگ ہے۔  لہٰذا  جو اسے خریدے گا اسے احساس ہونا چاہیے کہ اس نے  کوٹوں کا بزرگ خرید کر  بہت بڑا کارنامہ کیا ہے۔

26:     کوٹ کی قیمت کی کیا کیفیت ہے؟

کوٹ کی قیمت بہت قلیل یعنی کم ہے جب کہ شاعر کے مطابق اس کی قیمت اس کی عمر اور قدامت کے مطابق نہیں اس کی نسبت بہت ہی کم ہے۔

27:     بزرگوں کا سایہ کس طرح  غنیمت ہوتا ہے؟

اسلام میں بزرگوں کے احترام کا حکم  ہے۔ ان کی وجہ سے رحمت برستی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ  زندگی کا بڑا عرصہ گزار چکے ہوتے ہیں اور انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کس مسئلے کا کیا حل  ہے،  ان کا تجربہ اور احترام  بہت سے مسائل سے نکلنے کا باعث ہوتا  ہے،  یہی وجہ ہے کہ  بزرگوں کاسایہ غنیمت ہے۔

ہیں اس پہ دھبے جو سرخی کے اور سیاہی کے          نشان ہیں کسی ٹیچر کی بادشاہی کے

مراعات النظیر (دھبے، سرخی،سیاہی، ٹیچر)

28:     ٹیچر کے  پہننے   پر کوٹ کے ساتھ کیا ہوا؟

ٹیچر کے کوٹ پہننے پر اس کوٹ  پر سیاہی کے داغ اور دھبے لگ گئے ۔

29:     سرخی اور سیاہی کے یہ دھبّے کس طرح ثابت کرتے ہیں کہ کوٹ کسی ٹیچر نے  پہنا تھا؟

چوں کہ ٹیچر قلم، دوات، پین ، سیاہی  وغیرہ استعمال کرتے ہیں اس لیے  کوٹ  پر ان چیزوں  کے داغ دھبوں کا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسے کوئی ٹیچر بھی پہنتا  رہا ہے۔

جگہ جگہ جو یہ کپڑوں کی ضرب کاری ہے            نئی طرح کی یہ صنعت ہے، دستکاری ہے

30:     نئی طرح کی دستکاری کیا ہے؟

شاعر کے مطابق کیڑوں نے کوٹ کو جگہ جگہ سے عجیب انداز میں کاٹا ہوا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اسے کاٹ کر  انوکھا  ڈیزائن بنا دیاہے،  کیڑوں کے  کاٹنے کے نشانات کو شاعر نئی  طرح کی صنعت کاری  اور  دست کاری کہہ رہے ہیں۔

31:     کیڑوں کی ضرب کاری سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

کیڑوں کی ضرب کاری سے  مراد کوٹ پر کیڑوں کے کاٹنے کے اثرات ہیں۔ جن کی وجہ سے کوٹ   جگہ جگہ سے   پھٹا ہوا  ہے اور شاعر کیڑوں کی ضرب   کاری سے کوٹ کا اسی طرح پھٹا ہونا مراد لے رہے ہیں۔

جو قدر دان  ہیں، وہ جانتے ہیں قیمت کو             کہ آفتاب چرا لے گیا ہے رنگت کو

32:     کوٹ کی رنگت کیسی ہے؟

33:     کوٹ کی رنگت پر کیا اثر پڑ چکا  ہے؟

سورج کی روشنی کی وجہ سے کوٹ کی رنگت اڑ  چکی  ہے۔

 دھوپ میں  رہنے کی وجہ سے کوٹ کی رنگت پھیکی  ہو چکی ہے۔

34:     آفتاب کے  رنگت چرانے سے کیا مراد ہے؟

آفتاب کے رنگ چرانے سے یہ مراد ہے کہ سورج کی روشنی کی وجہ سے سے کوٹ کا اصل رنگ  ختم ہو کر پھیکا پڑ  چکا ہے۔

یہ کوٹ کوٹوں کی دنیا کا  باوا آدم ہے               اگر چہ ہے وہ نگہ، جو نگاہ سے کم ہے

35:     پہلے مصرعے میں موجود صنعت کی تعریف کریں؟

پہلے مصرعے میں “کوٹ ،کو ٹوں”  کی صورت میں صنعت اشتقاق استعمال ہو رہی ہے۔ (تفصیلی جواب 21)

36:     کوٹ کے کوٹوں  کے باوا آدم ہونے سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

باوا آدم کسی بھی چیز کی ابتدا یا پہلے نمونے  کو کہتے ہیں۔ جس کے لیے انگریزی میں لفظ پروٹوٹائپ (Prototype) استعمال ہوتا ہے۔ یہاں شاعر   بھی یہی مراد لے رہے ہیں کہ یہ کوٹ ابتدائی کو ٹوں  کا پہلا نمونہ  ہے،  بعد کے کوٹ  اسی کا ڈیزائن دیکھ کر بنائے گئے ہیں، لہٰذا کوٹوں میں اس کی حیثیت وہی ہے  جو انسانوں   میں حضرت  آدم علیہ السلام کی۔

37:     کوٹ کی اہمیت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے؟

کوٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے  کہ اس  کوٹ کی مثال ایسے ہے جیسے انسان کے لیے حضرت آدم علیہ السلام  کی  یعنی ان سے نسل ِانسانی کا آغاز  ہوا ۔ اسی طرح یہ کوٹ بھی  پہلا کوٹ ہے جس کے بعد  کوٹ بننا شروع ہوئے۔ مگر اسے ہر نگاہ نہیں سمجھ سکتی  کیوں کہ کچھ معاملات سمجھنے کے لیے خاص نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت  بھی کم لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

دہانِ زخم کی مانند  ہنس رہے ہیں کاج               وصول کرتے ہیں چینی کی انکھڑیوں سے خراج

38:     اس شعر میں موجود تشبیہ کی وضاحت کریں؟

اس شعر میں شاعر کوٹ کے کاج کو زخم کے منہ سے تشبیہ دے رہے ہیں   کہ جس طرح زخم کا منہ کھلا ہوتا ہے اسی طرح کاج میں بٹن والی جگہ  کھلی  ہوئی   محسوس ہو رہی ہے۔

 

 

 

39:     شعر میں موجود تشبیہ کے ارکان لکھیں

            مشبہ:                 دہانِ زخم

            مشبہ بہ:              کاج

            حرف تشبیہ:          کی مانند

            غرض تشبیہ:         منہ کا کھلا ہونا

            وجہ تشبیہ:            کاج کی کیفیت بتانا

40:     چینی کی انکھڑیوں سے خراج وصول کرنے کی وضاحت کریں؟

یہاں  شاعر مزاح پیدا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں  کہ مانتے ہیں کہ چینی لوگوں کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں اور  دور سے معلوم نہیں ہو پاتا کہ   ان کی  آنکھیں کھلی ہیں  یا بند۔  مگر   کوٹ کے کاج  ان کو   چیلنج کرتے نظر آتے ہیں کہ جس طرح تمھاری آنکھیں ہیں ،ہم بھی ایسے ہی نظر آ سکتے ہیں۔   خراج  وصول کرنے کا یہی معنی ہوتا ہے کہ جو چیز مشکل نظر آرہی ہے وہ کر کے دکھا نا،  اور کوٹ  کے کاج  چینی لوگوں کی آنکھوں کی نقل کر کے یہ   کام انجام دے رہے ہیں۔

41:     کاج کو کس سے تشبیہ دی گئی ہے اور کیوں؟

کاج کو زخموں سے تشبیہ دی گئی  ہے ۔جس طرح زخمی جسم پر زخم پھٹا ہوا نظر آتا ہے کوٹ کے کاج بھی بالکل ایسی ہی حالت میں نظر آ رہے، اسی وجہ سے شاعر انھیں  کھلے زخم سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

جگہ جگہ جو یہ دھبے ہیں اور چکنائی                  پہن چکا ہے کبھی اس کو کوئی حلوائی

42:     کوٹ کو کس کس پیشے کے لوگ استعمال کرتے رہے ہیں؟

کوٹ کو ملاح (واسکوڈی گاما)، ٹیچر، تاجر (مارکوپولو) اور حلوائی استعمال کرتے رہے ہیں۔

43:     اس شعر میں “جگہ جگہ”  کی صورت میں صنعت تکر ار استعمال ہو رہی ہے۔  صنعت لف و نشر سے کیا مراد ہے؟

شعر کے پہلے مصرعے میں کم از کم دو اشیاء کا ذکر کرنا  اور پھر انہی کی مناسبت سے اتنی ہی اشیاءکا ذکر دوسرے مصرعے میں کرنا صنعت  لف و نشر کہلاتی ہے۔ پہلے ذکر شدہ الفاظ/ اشیا کو لف  جب کہ بعد میں ذکر کردہ  الفاظ/اشیا  کو نشر کہا جاتا ہے۔

44:     کیسے معلوم ہوا کہ کوٹ   کوحلوائی بھی پہن چکا ہے؟

حلوائی کا کام  مٹھائی بنانا ہوتا ہے۔ چوں کہ  اس کا زیادہ تر کام  مکھن،  تیل اور  دیگر چکنائی والی اشیا سے ہے ، لہٰذا کوٹ پر چکنائی  کے دھبے اس بات کی علامت ہیں کہ اسے کوئی حلوائی پہن چکا ہے۔

مراعات النظیر (دھبے، چکنائی، حلوائی)

گزشتہ صدیوں  کی تاریخ کا ورق ہے کوٹ          خریدو اس کو کہ عبرت کا اک سبق ہے کوٹ

45:     کوٹ کے گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ورق ہونے سے کیا مراد ہے؟

شعبہ آثارِ قدیمہ کے مطابق جو چیز جتنی قدیم ہوتی ہے اس میں  اُس  زمانے ،  اس دور کے تغیرات (تبدیلیوں )کا علم   موجود ہوتا ہے۔ شاعر کے مطابق کوٹ بہت پرانا ہے ۔ اس نے گوروں کے دیس کو بھی دیکھ رکھا  ہے تو ترکی اور ایران سے بھی واقف ہے مختلف تاریخی شخصیات کے استعمال میں بھی رہ چکا  ہے اس لیے اس کوٹ نے ماضی کے  ادوار اور شخصیات کو دیکھ رکھا  ہے یوں اس میں ان سب  کی تاریخ چھپی  ہوئی ہے۔

46:     کوٹ کس طرح عبرت کا سبق ہے ؟

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  اجڑی بستیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ زمین کی سیر کرو اور بستیوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو ۔ یہ کوٹ  ماضی کی علامت  ہے اور ان شخصیات کے پاس سے آیا ہے جن کا نام اب تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے اور ساتھ ہی اس کا حلیہ بھی بدل چکا  ہے اس لیے یہ  عبرت کا سبق ہے۔

47:     شاعر کوٹ کو کیوں خریدنے کا کہہ رہا ہے؟

شاعر کوٹ  اس لیے  خریدنے کا کہہ رہا ہے کہ کہ اس میں عبرت کا سبق پوشیدہ ہے،  ماضی کے ادوار سے لے کر تاریخ کے اوراق تک کا سفر طے کر چکا  ہے۔  اس لیے اس کوٹ  میں قدامت  کے ساتھ ساتھ عبرت کے اسباق بھی ہیں ، اس لیے اسے خریدنا چاہیے۔

48:     نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں

نظم “پرانا کوٹ” سید محمد جعفری کی لکھی ہوئی ہے۔  وہ مزاحیہ انداز میں نہ صرف کوٹ کاحلیہ  بتاتے ہیں، بل کہ اس کی قدامت بتانے کے لئے لیے تاریخی شخصیات کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔  جن میں واسکوڈے گاما   اور مارکوپولو شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کوٹ کے  مختلف ملکوں کے سفر کو بیان کرتے ہیں۔ آخری اشعار میں عبرت  پکڑنے کا درس دیتے ہیں کہ یہ نہ صرف ماضی کی تاریخ  ہے بل کہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ جن جن شخصیات کے پاس سے آیا ہے  اب ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔

شاعر کا تعارف:

سید محمد جعفری بھرت پور،بھارت میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے برطانوی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت کراچی، لاہور اور تہران میں خدمات انجام دیں۔ انھوں نے  سیاسی و سماجی موضوعات پر 900 کے قریب نظمیں تحریر کیں۔ان کا انداز کلاسیکی شاعری جیسا ہے جس میں  مزاح، جدید اور آسان اردو ملتی ہے۔ وہ مشکل پسندی کے بجائے عام فہم شاعری کرتے ہیں۔ ان کی اہم خصوصیت غالب ؔ اور اقبالؔ کے مصرعوں کی تضمین ہے، جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ان کے دو مجموعے “شوخئ تحریر” اور “تیرِ نیم کش” شائع ہوئے۔ کلیات کا نام “کلیاتِ سید محمد جعفری “ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!