ایک لائبریری کی آپ بیتی

ایک لائبریری کی آپ بیتی

میں ایک قدیم لائبریری ہوں، کسی زمانے میں میرے نام سے دنیا واقف تھی۔ میں آج جس کھنڈر اور پراسراریت کے عالم میں ہوں، ایسی نہ تھی۔ نہ ہی میری یہ حالت تھی جو اب ہے۔ آئیے میں آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں بتاتی ہوں۔

          میری تعمیر مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ہوئی۔ چوں کہ ہارون الرشید کو کتب بینی کے ساتھ ساتھ علوم اور اہلِ علم سے دل چسپی تھی، اس لیے انھوں نے بہت سی علمی خدمات انجام دیں۔ ان کا دور عالمِ اسلام کا سنہری دور ہے۔

خلیفہ نے میری تعمیر کے لیے اپنے وزرا سے مشاورت کی اور اپنے کاری گروں کی مدد سے دریائے دجلہ کے کنارے ایک خوب صورت مقام کا انتخاب کیا۔ میری تعمیر کے سلسلے میں ماہرین تعمیرات کی مشاورتی مجلسوں کا انعقاد کیا گیا اور میرے لیے ایک نقشے کا انتخاب ہوا۔

          میری تعمیر کے لیے مضبوط بنیادیں رکھی گئیں۔ چوں کہ میرے پاس ہی دریائے دجلہ تھا، اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ اس کے پانی سے مجھے نقصان نہ ہو، اور سیلابی صورت حال مجھ پر اثر انداز نہ ہو۔ میری تعمیر کے لیے اعلیٰ پتھر اور لکڑی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ چیزیں سلطنت  عباسیہ کے مختلف حصوں سے منگوائی گئیں۔ مجھ میں دو سو کمرے بنائے گئے، اس کے علاوہ ہال بھی تعمیر کیے گئے۔ دروازے کے پاس لائبریری کا نقشہ بنایا گیا تا کہ لوگوں کو اپنا مطلوبہ مقام تلاش کرنے میں آسانی ہو۔جدید لائبریریوں کی طرح مجھ میں بھی ہر مضمون کا الگ الگ حصہ مقرر کیا گیا۔ علم قرآن کا شعبہ الگ تھا تو علم تفسیر و حدیث کا الگ۔ اسماء الرجال ، فقہ، صرف ، نحو، ریاضی، طبیعات (فزکس)، کیمیا(کیمسٹری)، حیاتیات(بائیولوجی) ،طب (میڈیکل)، فلکیات (خلائی علوم/سپیس ٹیکنالوجی) و تعمیرات سمیت مروج علوم  کے الگ  الگ حصے تھے۔

چوں کہ اس دور میں علم کے حصول کے لیے مناظرہ کی مجلسوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ لان تعمیر کیے گئے اور انھیں پھلوں، پودوں اور کیاریوں کی مدد سے سجایا گیا  تھا۔ یہاں اہلِ علم مناظرہ کی مجلسیں منعقد کیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ محققین کی سہولت کے پیش نظر  کرسیوں اور بیٹھنے کے انتظامات بھی تھے جہاں اہلِ تحقیق مشاورت کیا کرتے تھے۔

          عباسی خلیفہ نے مجھ میں ترجمہ کا شعبہ “دار الحکمت” کے نام سے قائم کیا۔ اس نے مترجمین و مصنفین کے لیے باقی شعبوں سے زیادہ تنخواہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ یہی نہیں کتاب ترجمہ ہونے پر، مترجم کو اس کے وزن کے برابر سونا یا چاندی  کا انعام بھی ملتا تھا۔ اس لیے بھی علم کی طرف لوگوں کا خاص رجحان تھا۔ عباسی سلطنت اس وقت عالمی قوت تھی، اس لیے انھیں خوش رکھنے اور تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی کتب کے تحائف بھیجے جاتے تھے۔ ہندوستان کے راجاؤں کی طرف سے بھیجی گئی کتب بھی مجھ میں رکھی گئیں۔ اس کے علاوہ ہارون الرشید نے رومن سلطنت سمیت دیگر علاقوں میں بھی وفد بھیجے، جو کتب لاتے تھے۔ وہ لوگ جو کتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یا سفر نہیں  کر سکتے تھے، میری وجہ سے انھیں بہت فائدہ ہوا۔

میری شہرت دور دور تک تھی اور میں اپنی اس اہمیت اور رونق پر پھولے سے نہ سماتی تھی۔ مگر مجھے بھول گیا تھا کہ ہر عروج کو زوال ہے۔  علم کا اتنا خزانہ ہوتے ہوئے یہ اٹل حقیقت میری آنکھوں سے اوجھل تھی کہ ایک نہ ایک دن میرا زوال آنا ہے۔ تیرہویں صدی کے اوائل میں اٹھنے والا تاتاری طوفان مجھے بھی نیست و نابود کر دے گا، مجھے علم نہیں تھا۔ سمرقند، بخارا،مرو، ہرات، نیشاپور سے ہوتا ہوا یہ طوفان بالآخر بغداد جیسے عظیم الشان شہر سے جا ٹکرایا۔ میں نے اپنے سامنے دنیا کے عظیم شہر اور سلطنت کو نمونۂ عبرت بنتے دیکھا۔ ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ نہ صرف شہر کو آگ لگا دی گئی بل کہ دریا کا بند توڑ کر تہہ خانوں میں موجود مسلمانوں کا بھی صفایا کر دیا۔ اس کا قہر یہیں تک  ہی نہ  رکا، بغداد شہر کے کتوں، بلیوں اور چوہوں تک سے انتقام لیا گیا۔ اور میں بے بسی کی تصویر بنی ایک عظیم الشان سلطنت کا  اور اپنا زوال دیکھتی رہی۔ دریائے دجلہ پہلے مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا تو پھر میری کتابوں نے اسے سیاہی عطا کی۔ مجھے آگ لگائی گئی اور میری کتابوں کی کثیر تعداد دریا کے حوالے کر دی گئی۔ یہی سلوک مسلمانوں کی ذاتی لائبریریوں کے ساتھ ہوا۔

          ہلاکو خان کے ساتھ ایک مسلمان “نظام الملک الطوسی” بھی تھا جسے اس نے سلطنت خوارزم کی جیل سے آزاد کروایا تھا۔ چوں کہ ہلاکو خان اہلِ علم کی قدر کرتا تھا، اس لیے محقق طوسی اس کے بہت قریب تھا۔ اس نے محکمۂ اوقاف (وہ محکمہ جہان زکاۃ کا مال اور عشر (زرعی ٹیکس) کےپیسے جمع ہوتے ہیں۔) محقق طوسی کے حوالے کر دیا۔ طوسی نے میری باقی ماندہ کتابوں کو بچا لیا جس میں ایک عظیم الشان کتاب “القانون فی الطب” بھی تھی۔ شعبہ طب اور جدید طب کی بنیاد رکھنے والی اس کتاب کی تدوین نو (کتاب پھر سے ترتیب دینا) محقق طوسی نے کی۔ محکمۂ اوقاف طوسی کے پاس ہونے کی وجہ سے اس نے نئی جگہ لائبریری قائم کی اور میری باقی ماندہ کتابوں کو وہاں رکھ دیا گیا۔ آج آپ جو ترقی اور سائنسی و علمی عروج دیکھ رہے ہیں یہ میری ماندہ راکھ ہی کا نتیجہ ہے۔

          میرے سامنے بغداد نئے انداز میں پھر سے آباد ہو چکا ہے۔ دنیا کی رونقیں بھی بحال ہو چکی ہیں مگر میری ویرانی آج 800 سال بعد بھی قائم ہے۔ میں نہ صرف اہلِ اسلام کے عروج کی علامت ہوں بل کہ ان کے ماضی کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔ اس کے ساتھ کسی قوم کی ترجیحات کی عکاسی بھی ہوں کہ بغداد تو آباد ہو گیا، مگر میری کتابوں کی رونقیں اور مجلسیں آباد نہ ہو سکیں

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

                   (اختر انصادی)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!