تخت فرس سے حضرت علی اکبر کا خطاب

تخت فرس سے حضرت علی اکبر  کا خطاب

 

شاعر کا تعارف:      مرزا سلامت علی دبیر اردو کے مشہور مرثیہ گو شاعر تھے۔ آپ کے شاعرانہ معرکے میر ببر علی انیس سے ہوا کرتے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی نے تقابلی تنقید ی پہلی کتاب، موازنہ انیس و دبیر ان ہی کے  شعر  و  فن  اور  فکر پر لکھی ہے۔مرزا دبیر  نے ایک پورا مرثیہ غیر منقوط بھی کہا ہوا ہے۔آپ نے مرثیہ کے علاوہ غزل، رباعی اور قطعات  بھی  کہے ہیں۔ شاعری کا اسلوب مرازا غالب سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے مرثیوں میں تشبیہ، استعارا اور صنعتوں کی کثرت ملتی ہے۔ لکھنؤ کے لہجے کی وجہ سے مشکل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں مگر رعایتِ لفظی کی وجہ سے اپنے کلام میں ایک حسن پیدا کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرثیہ  میں جزئیات نگاری سے بہت کام لیتے تھے۔اہم کتابوں میں “دفتر ماتم (دو جلد)” ، “رباعیاتِ دبیر” ، “ابواب المصائب” اور “رسالہ مرزا دبیر” شامل ہیں۔ آپ کی پہلی سوانح عمری کا نام  “شمس الضحیٰ” جب  کہ دوسری سوانح  عمری کا نام “حیاتِ دبیر” ہے۔ تین مثنویاں “مثنوی احسن القصص” ، “معراج نامہ” اور “مثنوی ممتاز نامہ” بھی ملتی ہیں۔

نظم کا مرکزی خیال: شاملِ نصاب نظم مرثیہ کے حصہ رزم میں سے ہے۔ رزم مرثیہ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہیرو اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھاتا ہے یا دشمن لشکر سے خطا ب کرتا ہے۔ اس حصہ میں حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خطاب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ابتدائی دو بند میں حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حُسن کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے، ساتھ میں آپ کے گھوڑے پر سوار ہونے کے منظر کا ذکر ہے اور اس کے مظاہر فطرت پر اثرات بتائے گئے ہیں۔ چوتھے بند میں میدانِ کربلا میں گرمی کی شدت اور  حضرت علی اکبر کا پسینہ صاف کرنے کا منظر بتایا گیا ہے، یہاں استعارات کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ آخری تین بند میں لشکرِ یزید سے خطا ب ہے کہ تم اپنی عقل سے فرق سمجھو کہ ہم کون ہیں، اور ہمارا رتبہ کیا ہے۔ تم لوگ کن نیک اور پاکیزہ لوگوں کے مقابل کھڑے ہو۔ دنیا وی مال و رتبہ  اور ظاہری حلیہ کسی کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں اور نہ ہی  لشکر کا کثیر تعداد  میں ہونا حق  پر ہونے کی دلیل ہے۔ یہاں تلمیحات، تقابل اور صنعت تفریق و تضاد کی کثرت ہے۔

www.universalurdu.com

شہزادے نے جلوہ جو کیا دامنِ زیں پر             پھر زین نے آوازہ کسا مہرِ مبیں پر

مرکب نے قدم فخر سے رکھا نہ زمیں پر            سرعت سے کہا فرش بچھا عرشِ بریں پر

پلکوں سے لیا  پنجے میں شہبازِ قضا کو

بغلوں کے  شکنجے میں کیا قید ہوا کو

 

 

1:      شہزادہ کس کو کہاجا رہا ہے؟

اس بند میں شہزادہ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو کہا جا رہا ہے کہ جب وہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو گھوڑے کی کیا کیفیت ہوئی اور زِین نے کس طرح اپنے فخر کا اظہار کیا۔

2:      شہزادے کے دامنِ زیں پر جلوہ کرنے سے کیا مراد ہے؟

گھوڑے پر انسان کے بیٹھنے کے لیے زِین رکھی ہوتی ہے۔ اس بند میں شہزادے یعنی حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زین پر جلوہ کرنے سے شاعر حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھوڑے پر سوار ہونے کو   مراد لے رہے ہیں۔

3:      زین نے مہرِ مبیں سے کیا کہا؟

زین نے مہر مبیں پر آوازہ کسا، یعنی فخر کا اظہار کیا۔ مہرِ مبیں سورج کو کہتے ہیں۔ سورج کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا، اور زین اس بات پر فخر کا اظہار کر رہی ہے کہ اس پر حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہیں، اسی فخر کی وجہ سے وہ سورج پر آوازہ کس رہی ہے، گویا اپنی خوش قسمتی کا اظہار کر رہی ہے کہ اسے وہ اعزاز حاصل ہوا ہے جو سورج کو بھی نہیں حاصل ہو سکا۔

4:      “آوازہ کسنا، قدم زمیں پر نہ رکھنا/لگنا” کی صورت میں کون سی صنعت ہے؟

“آوازہ کسنا، فخر سے زمیں پر پاؤں نہ لگنا/جمنا” محاورات ہیں، اور شعر میں محاورات کا استعمال صنعت ایراد المثل کہلاتا ہے۔ اس لیے آوازہ کسنا اور قدم زمین پر نہ لگنا کی صورت میں صنعت ایرادالمثل استعمال ہو رہی ہے۔

5:      گھوڑے کے زمین پر فخر سے قدم نہ رکھنے سے کیا مراد ہے؟

جب کسی بھی چیز کو دوسروں سے اعلیٰ رتبہ ملتا ہے تو وہ فخر کا اظہار کرتا ہے اور اس بات کا ظہار اس کی چال ڈھال سے بخوبی جھلکتا ہے۔ اس بند میں بھی گھوڑا اس وجہ سے فخر کا اظہار کر رہا  ہے کہ اسے کربلا جیسا میدان جنگ میسر آیا ہے اور ساتھ میں اس کے سوار کوئی عام انسان نہیں بل کہ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔

https://universalurdu.com

6:      فرش اور عرش کون سی صنعت کی نشان دہی کر رہے ہیں؟

            فرش اور عرش صنعت تضاد  کی نشان دہی کر رہے ہیں کیوں کہ دونوں الفاط ایک دوسرے کے الٹ ہیں۔

7:      عرشِ بریں پر فرش بچھانا کن معنوں میں استعمال ہو رہا ہے؟

عرشِ بریں پر فرش بچھانا کے الفاظ  کی صورت میں شاعر اپنے تخیل کی بلند پروازی کا اظہار کرتے ہوئے گھوڑے کی رفتار کی طرف اشارا کر رہے   ہیں، دوسرے معنوں میں اسی کا متبادل ہوا سے باتیں کرنا مراد ہے۔ گویا حضرت علی کبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوار ہونے کے بعد گھوڑے کی رفتار اتنی تیز ہوگئی تھی گویا وہ زمیں پر نہیں بل کہ عرش کے آس پاس دوڑ رہا ہے۔

 

 

8:      شہبازِ قضا سے کیا مراد ہے؟

شہبازِ قضاد سے مراد موت ہے، اس شعر  میں حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری کی طرف اشارا  ہے  کہ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر بہادری سے میدان میں موجود تھے گویا موت کو انھوں نے پلکوں پر بٹھا  رکھا  تھا اور جان کی پروا کیے بغیر میدانِ جنگ میں اترے تھے۔

9:      ہوا کو قید کرنے سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

ہوا کو بغلوں میں قید کرنے سے مراد گھوڑے کی رفتار ہے، کہ گھوڑا اس قدر تیز رفتار تھا کہ تیز ہوا کی  رفتار بھی اس کے مقابلے میں کم تھی۔

10:     آخری شعر کا مفہوم بیان کریں

آخری شعر کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موت سے بے خوف ہو کر میدان میں اترے اور ان کے گھوڑے کی رفتار بھی اتنی تیز تھی کہ ہوا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔

حوالہ کے اشعار:

(نظم در ِ مراد کی تشریح میں دئے گئے اشعار ، آیات اس نظم میں بھی بطور حوالہ دیے جا سکتے ہیں۔)

؎           اتنا خدا نے بہتر و برتر بنا دیا                              جان علی شبیہ پیغمبر ﷺ بنا دیا

                        اس سے بڑھ کر بھلا ہو گا کون شرف                   پہلے علی بنایا پھر اکبر بنا دیا

 

اک عالمِ حیرت تھا، چہ لاہوت، چہ ناسوت          سب جرم سے تائب تھے، چہ ہاروت، چہ ماروت

سب خوف سے تھے زرد  چہ خورشید، چہ یاقوت      سکتہ تھا سلاطین کو، نے تخت، نہ تابوت

بے خود جو کیا روئے درخشاں کی چمک نے

بالائے زمیں ٹیک دیے ہاتھ فلک نے

11:    پہلے شعر موجود صنعت مراعات النظیر کی وضاحت کریں

پہلے شعر میں “لاہوت،ناسوت” اور “ہاروت و ماروت” کی صورت میں صنعت مراعات النظیر ہے۔ لاہوت و ناسوت اہلِ تصوف کے ہاں دو عالم ہیں، جو کہ سالک خاص عبادات و وظائف کے بعد ان تک پہنچتا ہے جب کہ ہاروت و ماروت دو فرشتے ہیں جنھیں اہلِ بابل کی طرف بطور امتحان بھیجا گیا تھا۔ ان کا ذکر سورہ البقرۃ میں ملتا ہے۔

https://universalurdu.com

12:     لاہوت، ناسوت، ہارورت، ماروت، تلمیحات ہیں۔ ان کے بارے  میں مختصرا لکھیں

صوفیا کے ہاں چار عالم کی تقسیم ملتی ہے جو کہ مختلف مراتب و درجات کی طرف اشارا کرتی ہے۔ ہر عالم کی خاص خصوصیت ہے۔ یہ چار عالم مندرجہ ذیل ہیں۔

1:  ناسوت                       2: ملکوت             3:  جبروت           4: لاہوت

1:ناسوت:           یہ دنیا جس میں ہم زندہ ہیں، اسے عالمِ ناسوت کہا جاتا ہے۔ یہاں  بشری تقاضے موجود ہیں،اسی کو عالمِ وجود بھی کہا جاتا ہے۔

2: ملکوت:            عالمِ ناسوت سے ترقی کے بعد یہ عالم آتا ہے۔ مقدس ارواح اور فرشتوں کی دنیا ہے۔یہاں، شیطان، نفس اور بشری تقاضوں کا وجود نہیں، یہاں صرف رب تعالیٰ کی رضا ہے۔

3: جبروت:          اسے روح کا عالم کہتے ہیں۔یہاں انسان اللہ تعالی کی ہر قسم کی تقدیر پر مکمل راضی ہوتا ہے۔

4:لاہوت:          یہ عالم، حال ، ماضی اور مستقبل  سے ماروا ہے۔ یہاں دن رات کا کوئی تصور نہیں۔اسے عالمِ غیب بھی کہتے ہیں اور یہ فنا و بقا سے بھی ماورا ہے۔ یہاں انسان صرف رب تعالیٰ سے مخلص ہو جاتا ہے۔

ہاروت و ماروت:     یہ دو فرشتوں کے نام ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق انھیں بابل کے لوگوں کے لیے آزمائش بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یہ انھیں جادو سکھاتے تھے مگر پہلے انھیں بتاتے تھے کہ جادو سیکھنے سے تم لوگ کافر ہو جاؤ گے۔ اس کے باوجود بابل کے لوگ ان سے جادو سیکھتے تھے۔ قرآن مجید کے مطابق زیادہ تر لوگ میاں بیوی میں جدائی کا جادو سیکھتے تھے۔

13:     لاہوت و ناسوت میں عالمِ  حیرت  کیوں تھا؟

شاعر کے مطاق ہر ظاہری و باطنی عالم حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بہادر ی اور میدانِ جنگ میں اترنے کے منظر سے حیرت میں تھا۔

14:     ہاروت و ماروت کے جرم سے تائب ہونے کا کیوں کہا جا رہا ہے؟

ایک ضعیف روایت کے مطابق ہاورت و ماروت کو انسانی خواہشات کے ساتھ بطور امتحان بھیجا گیا تھا اور انھوں نے خطا کی تھی۔ وہ فرشتے  بھی حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے میدان جنگ کے منظر ، ان کی بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر اپنے جرم سے توبہ کر رہے تھے۔

https://universalurdu.com

15:     خورشید اور یاقوت کیوں خوف زدہ تھے؟

خورشید اور یاقوت حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی شجاعت و بہادری اور اور رعب و جلال دیکھ کر خوف میں تھے کہ نجانے اب کیا ہو گا۔

16:     خورشید اور یاقوت کو خوف سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اس صنعت کی تعریف کریں، نیز شعری مثال لکھیں

کلام میں، مختلف  قسم کی اشیا کو ایک حکم میں داخل کرنا صنعت جمع کہلاتا ہے۔ یہاں خورشید اور یاقوت الگ الگ اشیا  ہیں، مگر انھیں خوف سے منسلک کیا جا رہا ہے کہ، دونوں خوف زدہ تھے۔ اس صورت میں صنعت جمع استعمال ہو رہی ہے۔

 ؎           ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیرے خالی                              نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل

 

17:     سلاطین کو کس چیز کا سکتہ تھا؟

سلاطین کو حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رعب و جلال او ر ہیبت سے سکتہ تھا، نہ انھیں اپنے تخت و تاج کا خیال رہا تھا اور نہ ہی تابوت کی فکر تھی جو کہ یہاں موت کی علامت ہے۔ گویا ہر چیز سکتے میں تھی اور زندگی و موت تک کی کیفیت سے بے پروا ہو چکی تھی۔

18:     سلاطین کے سکتے کی کیا کیفیت تھی؟

            جواب 17

19:     فلک کیوں بے خود  ہوا؟ نیز اس بےخودی کی کیا کیفیت تھی؟

1:        حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےگھوڑے پر سوار ہونے اور میدانِ جنگ میں اترنے کے منظر کو دیکھ کر آسمان بھی حیرت میں تھا۔ یہاں شاعر صنعت مبالغہ کا استعمال کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ جس طرح کوئی انسان کوئی خاص منظر دیکھنے میں محو ہوتے ہوئے اپنے بازو ٹیک دیتا ہے، فلک بھی اسی طرح اپنے بازو ٹیک کر کربلا کے میدان کا سارا منظر دیکھ رہا تھا۔

2:       حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بہت حسین تھے۔آپ کو ہم شکل پیغمبر ﷺ بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ آپ کی شکل حضرت محمد ﷺ سے ملتی تھی۔ آخری شعر  میں شاعر حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کی خوب صورتی کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہےہیں کہ میدانِ کربلا میں آپ کے روشن چہرے کی خوب صورتی اور جلال دیکھتے ہوئے زمین کے لوگ تو دور کی بات آسمان بھی اس قدر محو ہوا  کہ محسوس ہونے لگا گویا آسمان نے اپنے ہاتھ ٹیک دیے ہیں اور حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوب صورتی دیکھنے میں مگن ہے۔

https://universalurdu.com

20:     آخری شعر میں صنعت مبالغہ  کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

صنعت مبالغہ سے مراد ہے کسی چیز کو اس حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہ حقیقت میں ایسا ممکن نہ  ہو  ۔ آخری شعر میں آسمان کے ہاتھ ٹیک کر حضرت علی اکبر کے حسن میں محو ہونے کی صورت میں صنعت مبالغہ استعمال ہو رہی ہے۔

21:     آخری شعر میں صنعت حسن تعلیل کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

صنعت حسن تعلیل سے مراد کسی چیز کی وہ وجہ بیان کرنا جو اس کی اصل وجہ نہ ہو۔ آخری شعر میں شاعر آسمان کے ہاتھ ٹیکنے سے آسمان کے کناروں سے جھکا ہونا مراد لیتے ہوئے اس کی وجہ، حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسن میں محو ہونے کو وجہ قرار دے رہے ہیں جب کہ اصل میں آسمان پہلے سے ہی اس طرح جھکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح یہاں شاعر صنعت حسن تعلیل استعمال کر رہے ہیں۔

            حوالہ کے اشعار:

            ؎           آلِ نبیﷺ میں جتنے صغیر و  کبیر ہیں                  سب ورثہ دار زور شہ قلعہ گیر ہیں

بے مثل و بے جواب ہیں اور بے نظیر ہیں              اپنی جگہ پہ سب ہی جناب امیر ہیں

بے تیغ جنگ جیتے تو اصغر کہیں اسے                     اس سے بھی ہو بزرگ تو اکبر کہیں‌اسے

؎           حسنِ یوسف اور، حسنِ اکبر اور ہے                     کربلا کو مت ملاؤ مصر کے بازار سے

 

راہوار کے کاووں سے زمیں چرخ میں آئی                   پر عرق عرق ہو گیا وہ حق کا فدائی

چہرے پہ عجب آب پسینے نے دکھائی                ان قطروں سے نیساں پہ گھٹا شرم کی آئی

یہ قدر عرق کی نہ کسی رو سے بڑھی تھی

شبنم کبھی خورشید کے منہ پر نہ پڑی تھی

22:     زمین کے چرخ میں آنے کی وجہ کیا بنی؟

حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھوڑے کے کاووں اور اس کی رفتار کی وجہ سے زمین چرخ میں آئی یعنی اس نے حرکت شروع کر دی۔

23:     حق کا فدائی کیوں عرق عرق ہو گیا؟

میدانِ کربلا میں سورج کی تپش اور گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ حق کا فدائی یعنی حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر پسینہ آ گیا۔

https://universalurdu.com

24:     پسینے کے آب دکھانے سے کیا مراد ہے؟

            پسینے کی آب سے  مراد سورج کی روشنی   کی وجہ سے اس کا چمکنا ہے۔

25:     نیساں صنعت تلمیح ہے۔ اس کی وضاحت کریں

نیساں بہار کے مہینے کی بارش کو کہتے ہیں، اس بارش سے متعلق مشہور  ہے کہ اس سے گہر میں موتی  پیدا ہوتے  ہیں۔ کسی بھی فرضی واقعہ، داستان وغیرہ کا ذکر کرنا صنعت تلمیح کہلاتا ہے، اور اس بند میں ‘نیساں’ کی صورت میں صنعت تلمیح ہے۔

26:     عرق کی قدر کس طرح بڑھی؟

27      عرق کی قدر بڑھنے سے شاعر کیا مراد لے رہے  ہیں؟

کبھی کبھی کسی عام چیز کی قدر اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس کا تعلق کسی خاص شخصیت سے ہے۔ اس بند کے مطابق عرق یعنی پسینے کی قدر اس وجہ سے بڑھی تھی کیوں کہ وہ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرۂ مبارک پر موجود تھا۔

28:     شبنم کے خورشید کے منہ پر پڑنے سے کیا مراد ہے؟

یہاں شاعر لفظ ‘خورشید’ حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے چہرۂ مبارک کو کہہ رہا ہے۔  اور پسینے کے قطروں کو شبنم کہہ رہا ہے۔ لہٰذا یہاں شبنم کے قطروں کے خورشید پر پڑنے سے مراد یہ ہے کہ پسینے کے قطرے حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرۂ مبارک پر تھے۔ اور اگر حقیقی معنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو سورج کو کبھی  پسینہ نہیں آ سکتا ، لہذا یہاں شاعر انتہائی جامع اور بلیغ انداز میں رعایت لفظی کا استعمال کر رہے ہیں۔

29:     بند میں استعمال ہونے والی صنعتوں کی نشان دہی کریں

اس بند میں صنعت تکرار (عرق،عرق)، مراعات النظیر (قطرے، نیساں، گھٹا) اور مبالغہ (سورج پر شبنم کے قطرے  پڑنا) استعمال ہو رہی ہیں۔

30:     یہاں شاعر خورشید کس کو کہہ رہے ہیں؟

اس بند میں شاعر خورشید سے حضرت علی اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا چہرۂ  مبارک مراد لے رہے ہیں۔ گویا میدانِ کربلا میں ان کا چہرہ اتنا خوب صورت اور چمک دار تھا جیسے ستاروں کے مقابلے میں سورج ہو۔

31:     آخری مصرعے میں موجود استعارہ کے ارکان تحریر کریں

            مستعار لہ:                                   چہرۂ مبارک                                              پسینے کے قطرے

            مستعار منہ:                                 خورشید                                                    شبنم

            وجہ جامع:            چہرۂ مبارک کی روشنی/جلال/خوب صورتی ظاہر کرنا پسینے کی چمک ظاہر کرنا

                                    سورج کی طرح چہرہ مبارک روشن تھا                              

حوالہ کے اشعار:

            ؎           ہم تمھیں دکھلائیں گے یوسف نبیﷺ کی آل میں               تم نہ دکھلا پاؤ گے نبیوں  میں اکبر دوسرا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!