جواب شکوہ

جواب شکوہ

نظم کی ہئیت: مسدس (ترکیب بند)

بند 1: (ص 189)

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پرنظر رکھتی ہے

خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پر گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سر کش و چالاک مرا

آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا

 

 01:   جواب شکوہ کیوں لکھی گئی؟

1911ء میں علامہ اقبال نے انجمن حمایت الاسلام کے جلسے میں نظم ‘شکوہ’ پڑھی جس میں تلخ لہجے میں مسلمانوں کی موجودہ حالت پر افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے سوال بھی تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ شکوہ کے اس انداز پر کئی علماء نے علامہ اقبال پر کفر کا فتوی بھی لگایا۔ اسی نظم شکوہ کے جواب میں علامہ اقبال نے 1913ء میں نظم “جواب شکوہ” لکھی۔

 02:   اس نظم کی ہئیت کیا ہے؟

اس نظم کے ہر بند میں 6 مصرعے ہیں لہذا اس کی ہئیت مسدس ہے۔

03:   دل سے نکلی بات کیسے اثر رکھتی ہے؟

دل سے نکلی بات اثر رکھتی ہے کیوں کہ اس میں بناوٹ یا دھوکہ نہیں ہوتا اور وہ  دل  کی گہرائی سے کی گئی ہوتی ہے۔

 04:   کون سی بات اثر رکھتی ہے؟

دل سے نکلی بات اثر رکھتی ہے۔

 05:   کس کے پر نہیں؟

دل سے نکلی بات کے پر نہیں ہوتے۔

 06:   کیا طاقت پرواز رکھتی ہے؟

دل سے نکلی بات طاقتِ پرواز رکھتی ہے۔

 07:   یہاں طاقت پرواز سے کیا مراد ہے؟

یہاں طاقت پرواز سے مراد قبول ہونے یا اثر کرنے کی قوت رکھنا ہے۔

 08:   دل سے نکلی بات کی رفعت پر کس طرح نظر ہوتی ہے؟

سچے دل سے کی گئی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے اور اسے رد نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دل سے نکلی بات عرش کی بلندیوں پر پہنچ کر قبول ہوتی ہے۔ اس طرح دل سے نکلی بات کی نظر رفعت پر ہوتی ہے۔

 09:   قدسی الاصل سے کیا مراد ہے؟

قدسی الاصل سے مراد فرشتوں جیسی پاکیزگی یا ان جیسا معصوم ہونا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس سے مراد انسان ہے جس کی بنیاد اس کی روح ہے۔

 10:   خاک، گردوں: شعری قواعد میں کیا ہیں؟

خاک اور گردوں کے معانی متضاد ہیں اور شاعری میں متضاد الفاظ استعمال کرنا صنعت تضاد کہلاتا ہے۔ لہذا خاک اور گردوں صنعت تضاد ہیں۔

 11:   “خاک سے اٹھتی ہے گردوں پر گزر رکھتی ہے” کی وضاحت کریں

اس مصرعے سے مراد یہ ہے کہ دل سے نکلی ہوئی بات بے شک ایک حقیر سے خاکی انسان کی زبان سے نکلتی ہے مگر اس میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ وہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے اور بارگاہِ الہی میں مقبولیت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔

 12:   نالۂ بے باک سے کیا مراد ہے؟

نالۂ بے باک سے مراد بے خوفی سے کی گئی دعا ہے۔

 13:   کون سا نالہ آسمان چیر جاتا ہے؟

نالۂ بے باک آسمان چیر جاتا ہے۔

 14:   نالۂ بے باک کے آسمان چیرنے سے کیا مراد ہے؟

نالہ بے باک کے آسمان چیرنے سے مراد “شکوہ” کا قبول ہونا ہے۔ / نالہ بے باک کے آسمان چیرنے سے مراد اس نالہ کا قبول ہونا ہے۔

 15:   گردوں پر گزر رکھنے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد آسمان سے آگے پہنچ جانا  یعنی قبولیت کی صلاحیت کا ہونا ہے۔

 16:   عشق کی کیا خوبیاں/ صفات بیان کی گئی ہیں؟

عشق کی صفات فتنہ گر، سرکش اور چالاک ہونا بیان کی گئی ہیں۔

 17:   عشق کے بے باک ہونے سے کیا مراد ہے؟

عشق کے بے باک ہونے سے مراد قلب عشق کا بے خوف و خطر ہو کر اپنے مقصد یا بات کو مطلوبہ مقام یا ہستی تک پہنچا دینا ہے۔

 18:   عشق کیسے سرکش ہوتا ہے؟

چوں کہ وہ اپنے مقصد کی خاطر کسی بھی طاقت سے ٹکرا جاتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کرتا اس لیے عشق سرکش ہوتا ہے۔

 19:   نالۂ بے باک نے آسماں کو کیوں/ کیسے چیرا؟

نالہ بے باک نے آسمان اس  لیے چیرا کیوں کہ اس میں خلوص شامل تھا۔

نالہ بے باک نے قبول ہو کر آسماں چیرا۔

 

بند 2(ص 189)

پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی!

بولے سیارے،  سرِ عرش بریں ہے کوئی

چاند کہتا تھا، نہیں اہل زمیں ہے کوئی

کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

 

 20:   پیر گردوں کون ہے؟

پیرگردوں سے مراد آسماں کا بزرگ یعنی زحل سیارہ ہے۔

 21:   پیر گردوں نے کیا سنا؟

پیر گردوں نے ‘شکوہ’ سنا۔

 22:   پیر گردوں نے کیا کہا؟

پیر گردوں نے کہا: “کہیں ہے کوئی”

 23:   “کہیں ہے کوئی” سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی مخلوق ہے جو رب تعالی سے شکوہ کر رہی ہے۔

 24:   سیارے کیا بولے؟

سیارے بولے کہ “سر عرش بریں ہے کوئی”

 25:   سر عرش بریں سے کون سی مخلوق مراد ہے؟

اس سے مراد فرشتے ہیں۔

 26:   چاند کیا کہتا  تھا؟

چاند کہتا تھا “اہلِ زمیں ہے کوئی”

 27:   رضواں سے کیا مراد ہے؟َ

رضواں تلمیح ہے۔ اس سے مراد جنت کا نگران فرشتہ ہے جس کے ذمے جنت کا انتظام ہے۔

 28:   رضواں شکوے کو کیسے سمجھا؟

کیوں کہ رضوان داروغہ جنت ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کے جنت میں رہنے کے عرصے میں یہی فرشتہ ان کی پسند، ناپسند اور خواہشات اور ان کے جنت سے نکالے جانے سے واقف تھا لہذا وہی انسان کے شکوے کو سمجھ سکا۔

 29:   جنت سے کس کو نکالا گیا؟ / جنت سے نکالا ہوا انساں سے کیا مراد ہے؟

جنت سے  انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو نکالا گیا۔

30:   اس بند میں موجود صنعت کی تعریف کریں اور اشعار سے مثالیں دیں / دوسرے بند کے آخری شعر میں صنعت تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ اس کے پیچھے کون سا واقعہ ہے؟

اس بند میں صنعت تلمیح استعمال کی گئی ہے۔

شاعری میں کسی تاریخی واقعہ، شخصیت، شہر، آیت وحدیث وغیرہ کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کرنا کہ پورا واقعہ ذہن میں آ جائے، صنعت تلمیح کہلاتاہے۔ یہاں رضوان اور ‘جنت سے نکالا ہوا انساں’ کی صورت میں صنعت تلمیح استعمال کی گئی ہے جس کے پیچھے انسان کے جنت میں رہنے کے عرصہ اور نکالے جانے کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے۔

2 thoughts on “جواب شکوہ”

  1. Pingback: جواب شکوہ بند 3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!