کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا  ہات نہیں

غزل فیض احمد فیضؔ

 

تعارف :

فیض احمد فیضؔ  کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔ 1956 میں وہ راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار بھی کیے گئے تھے۔انھیں روس کا اہم ادبی ایوارڈ ”  لینن پرائز” بھی  ملا۔  ان کی شاعری میں تمام شعری خصوصیات موجود ہیں ۔ وہ کلاسیکی لہجہ اپناتے ہوئے بھی جدید معنی پیدا کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر شاعری عوامی جذبات کی عکاس اور ترقی پسندی کے مطابق ہے۔

 

 شعر نمبر 1:

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا  ہات نہیں

صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

تشریح:

فیض احمد فیضؔ  اس شعر میں کلاسیکی شعری رویہ اپناتے ہوئے محبوب کا ذکر کر رہے ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس سے محبت کرتا ہے  ہمیشہ اس کے خیالوں میں گم رہتا ہے ، وہ محفل میں بھی اسی کو یاد کرتا ہے اور محفل میں نہ ہونے کے وقت بھی اسی کو یاد کرتا ہے۔  اس طرح اس کی زندگی ہر وقت اپنے محبوب کی یادوں میں گزرتی ہے۔ اس کی ہنسی خوشی ،اس کا رونا مسکرانا، ہر چیز اس سے منسلک ہوتی ہے۔ کسی بُری سے بُری محفل میں بھی محبوب کے ہونے سے ،اسے وہ محفل اچھی لگتی ہے۔  کوئی اچھی سے  اچھی محفل بھی ، اسے ویران لگتی ہے۔  اردو  شاعری  میں محبوب کے ہمیشہ پاس ہونے کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ مومن خان مومنؔ   کا مشہور شعر ہے:

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

اس شعر میں بھی شاعر بالکل اسی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ،  اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے تمھیں بھلا دیا ہے،  یا تم میرے پاس موجود  نہیں، تمھاری خام خیالی ہے۔ تم ہر وقت اور  ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہو۔ تم میرے سامنے نہیں تو بھی کوئی بات نہیں، میری زندگی کی ہجر کی راتوں میں ایسی کوئی رات نہیں  جب مجھے تمھارا پاس نہ ہونا محسوس  ہوا ہو،کیوں کہ تم  میرے پاس موجود نہ ہو تو بھی میں اپنے خیالوں کی دنیا بسا لیتا ہوں۔ اس طرح  مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں تمھارے ہی پاس ہوں۔ اس طرح شاعر محبوب سے محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس چیز پر خوش ہے کہ ان کی زندگی میں ہجر کی ایسی کوئی رات نہیں جہاں ان کے محبوب کا وجود نہ ہو۔

دل کے آینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

چوں کہ فیض احمد فیضؔ  کا تعلق  ترقی پسند  تحریک سے بھی تھا اور ان کی زیادہ تر شاعری ترقی پسند تحریک سے متعلق ہے، اس وجہ سے اس شعر سے  یہ مفہوم بھی نکالا جا سکتا ہے کہ، یہاں محبوب سے وہ اپنے وطن اور عوام کو مراد لے رہے ہیں۔  ان کو ایک عرصہ  جیل میں بھی رہنا پڑا ۔  اس وجہ سے گویا وہ جیل کے عرصے کو ہجر کی رات نہ ہونا قرار دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ معانی  اخذ ہوتا ہے کہ ،اے میری عوام!  میں ہمیشہ تمھارے لیے   فکر مند رہتا ہوں۔ میرا سخن، میری شاعری، میرا پیغام، سب کچھ تمھارے لیے ہے ۔ لہٰذا   میرے کلام میں ہر  جگہ صرف تمھاری پروا   ہے، میرے ہاں  تمہاری ہی فکر مندی ہے  اور میں  تمھارے حقوق کی بات کرتا ہوں۔ اب  جب کہ میں اسی جرم  کی وجہ سے جیل میں آ چکا ہوں تو مجھے کوئی افسوس نہیں۔ میرا جیل میں رہنا ایسے ہے جیسے  میں اپنے محبوب کے پاس ہوں۔ اس طرح وہ اپنی اس قید کو  ہجر کی رات نہ ہونا قرار دے رہے ہیں اور اس پر شکر گزار ہیں۔

حوالہ کے دیگر اشعار:

متاعِ بے بہا ہے درد و سوز و   آرزو مندی

مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی

 

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!