غزل 2  میر تقی میر

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

اب صبح ہونے آئی ہے، اک دم تو سوئیے

1:      اس شعر سے شاعر کی عمر کا کیا اندازہ ہوتا ہے؟

اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ پیری کے موسم میں جوانی کو نہیں رونا چاہیے، یعنی بڑھاپے میں اپنے ماضی کو یاد کر کے پچھتانا نہیں چاہیے کیوں کہ اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر بڑھاپے میں داخل ہو چکے ہیں۔  

2:      پیری میں جوانی کے موسم کو رونے سے کیا مراد ہے؟

پیری میں جوانی کے موسم کو رونے سے یہ مراد ہے کہ انسان کا اپنے ماضی کو یاد کر کے رونا یا  پچھتانا۔ اس سے یہ معانی بھی نکلتا ہے کہ شاعر کا ماضی اچھا گزرا تھا اوروہ اپنے اُس حسین ماضی اور جوانی کے ایام کو یاد کرتا ہے۔ اس سے یہ معانی بھی نکلتا ہے کہ شاعر اپنے ماضی کی غلطیوں پر پچھتا رہا ہے اور اظہارِ افسوس میں راتوں کو روتا ہے۔

3:      شاعر کیوں رو رہا ہے؟

شاعر  اپنے ماضی اور جوانی کے ایام کو یاد کر کے رو رہا ہے۔ اس سے مراد جوانی کے حسین پل یاد کر کے رونا بھی ہو سکتا ہے اور غفلت کے عالم میں جوانی کا وقت ضائع ہونے پر رونا بھی ہو سکتا ہے۔

4:      اس شعر میں شاعر کس سے مخاطب ہے؟

اس شعر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہیں۔ وہ خود سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اپنے ماضی پر مت رو، کیوں  کہ ماضی تو گزر چکا ہے۔ اگر رونے کا کوئی فائدہ ہوتا یا ماضی بدل سکتا ہوتا تو ٹھیک تھا، مگر تمھارے رونے سے ماضی تبدیل نہیں ہو گا،ا س لیے مت  رو۔

5:      شاعر کیوں سونا چاہتا ہے؟

            شاعر اس لیے سونا چاہتا ہے کیوں کہ اس نے پوری رات رونے اور پچھتانے میں گزار دی ہے اور صبح کا  وقت ہو چکا ہے۔

حوالہ کے اشعار:

؎           وقتِ پیری شباب کی باتیں                              ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

؎           گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں                               سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

 

اخلاصِ دل سے چاہیے سجدہ نماز میں

بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے

6:      کون سا  سجدہ/عبادت قابلِ قبول ہے؟

خلوصِ دل سے کیا گیا سجدہ یا عبادت قابلِ قبول ہے۔ غفلت اور ریا کاری سے بھرے ہوئے دل کا سجدہ قبول نہیں کیا جاتا بل کہ روزِ قیامت منہ پر دے مارا جائے گا۔

7:      عبادت کے لیے کیا شرط ہے؟

عبادت کے لیے خلوصِ دل کی شرط ہے کہ انسان اپنے رب سے مخلص ہو کر بغیر کسی غرض کے، اسی کی بندگی اور عبادت کرے۔

8:      کس طرح وقت ضائع ہوتا ہے؟

ایسی عبادت اور سجدے وقت کا ضیاع ہیں جن میں خلوص نہیں بل کہ مطلب پرستی، دکھاوا یا کوئی اور غرض پوشیدہ ہے۔ ایسی عبادت انسان کو تھکاوٹ اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں دے گی اور روزِ قیامت منہ پر دے ماری جائے گی۔

9:      کیا چیز بے فائدہ ہے؟

جواب 8

10:     شاعر کیا نصیحت کر رہے ہیں؟

شاعر نصیحت کر رہے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے مخلص ہو کر صرف اسی  کی بندگی کرنی چاہیے اور اس طرح کرنی چاہیے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس میں انسان کی ذاتی پسند ، ناپسند اور غرض کا عمل دخل نہ ہو بل کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی مقصد ہو۔

11:    اس شعر میں کون سی صنعت استعمال ہو رہی ہے؟

مراعات النظیر (اخلاصِ دل، سجدہ، نماز)

12:     اخلاصِ دل سے سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟

            جواب 10

حوالہ کے اشعار:

            ؎           جاں دی، دی ہوئی اسی کی تھی                          حق تو   یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

            ؎           یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے                    ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو  نجات

 

کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں

اس آبِ گرم میں تو نہ انگلی ڈبوئیے

13:     استعارا کی تعریف کریں،  نیز شعری مثال تحریر کریں

استعارا کے معنی ہیں عاریتا لینا یا ادھار لینا۔ علمِ بیان کی رو سے کسی مشترکہ خوبی یا خامی کی بنیاد پر کسی چیز کو ہو بہو دوسری چیز قرار دینا استعارا کہلاتا ہے۔ اس میں تشبیہ کا تعلق ہوتا ہے۔

؎           ایک روشن دماغ تھا نہ رہا                    شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

14:     اس شعر میں موجود ارکانِ استعارا کی وضاحت کریں

            مستعار لہ:            آنسو

            مستعار منہ:          آبِ گرم

وجہ جامع:            آنسوؤں کا گرم ہونا

15:     شاعر غمگین لوگوں کے بارے میں کیا بتا رہے ہیں؟

شاعر غمگین لوگوں کے  بارے میں بتا رہے ہیں کہ وہ اتنے دکھی اور غم زدہ ہیں کہ شدت سے روتے ہیں۔ ان کے آنسوؤں کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے گویا وہ آنسوؤں میں نہا چکے ہوں۔

16:     آنسوؤں میں نہانے سے کیا مراد ہے؟

            آنسوؤں میں نہانے سے مراد انسان کا شدت سے رونا اور اظہارِ غم کرنا ہے۔

17:     آبِ گرم میں انگلی نہ ڈبونے سے شاعر کیا معانی لے رہے ہیں؟

آبِ گرم میں انگلی نہ ڈبونے سے شاعر کی مراد یہ ہے کہ انسان کو بہت شدت سے غم نہیں منانا چاہیے اور نہ ہی اتنے آنسو بہانے چاہئیں  بل کہ صبر سے کام لینا چاہیے۔

(واحد کے لیے چاہیے، جمع کے لیے چاہئیں ہوتا ہے)

18:     اس شعر میں کنایہ کس طرح استعمال ہوا ہے؟

اس شعر میں “آبِ گرم میں انگلی ڈبونا” کی صورت میں استعمال ہوا ہے کیوں کہ یہ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہو  رہا ہے۔ اور حقیقی معنوں میں بھی کوئی انسان گرم پانی میں اپنی انگلی ڈبو سکتا ہے۔

19:     اس شعر میں شاعر کیا نصیحت کر رہے ہیں؟

اس شعر میں شاعر نصیحت کر رہے ہیں کہ انسان کو اپنے غم اور دکھ  کی صورت میں صبر سے کام لینا چاہیے، ہر وقت آنسو نہیں بہانے چاہئیں بل کہ مضبوطی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

حوالہ کے اشعار:

؎           مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب  ہم نے                درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

؎           میری قسمت میں غم گر اتنا تھا                           دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

؎           موت کتنی بھی سنگ دل ہو مگر                          زندگی سے تو مہرباں ہو گی

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان  ہے                            ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

اب جان جسمِ خاک سے تنگ آ گئی بہت

کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کوڈھوئیے

20:     کنایہ کی تعریف کریں، نیز اس کی مختلف اقسام کے نام تحریر کریں۔

کنایہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی پوشیدہ بات، اشارا یا خفیہ اشارے کے ہیں۔ علمِ بیان کی رو سے کنایہ وہ کلمہ ہے جس کے معنی مبہم اور پوشیدہ ہوں اور ان کا سمجھنا کسی قرینے کا محتاج ہو اور یہ اپنے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی میں اس طرح استعمال ہوا ہو کہ اس کے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا ئیں تو درست ہوں۔

کنایہ کی مندرجہ ذیل آٹھ  اقسام ہیں:

1             کنایہ قریب:         کوئی ایسی صفت جو کسی خاص شخص سے منسوب ہو اور اس صفت کو بیان کر کے موصوف (جس کی صفت بیان کی جا رہی ہو) مراد ہو۔

2              کنایہ بعید:             کنایے کی یہ قسم مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ اسے “خاصہ مرکبہ” بھی کہتے ہیں۔ اس میں کئی صفات ایک شخص/چیز سے منسوب کی جاتی ہیں۔

3             تلویح:   لغت میں تلویح سے مراد زرد کرنا، گرم کرنا، کنایہ، اشارا کرنا، کپڑوں کو چمک دار کرنا وغیرہ کے ہیں۔کنائے کی وہ قسم جس میں موصوف تک پہنچنے کے لیے متعدد واسطوں سے گزرنا پڑے، تلویح کہلاتی ہے۔

4              رمز:     رمز کا معنی آنکھوں /پلکوں سے اشارا کرنا، ذومعنی بات کرنا، مخفی یا پوشیدہ بات کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد کنایہ کی وہ قسم ہے جس میں واسطے زیادہ نہ ہوں مگر بات پوشیدہ ہو۔

5             ایما واشارا:           ایما کے معنی بھی اشارا کرنے کے ہیں۔ یہ کنایہ کی  وہ قسم ہے جس میں نہ زیادہ واسطے ہوتے ہیں اور نہ یہ پوشیدہ بات ہوتی ہے۔

6              تعریض: تعریض کے لغوی معنی ہیں چھیڑنا ، اعتراض کرنا، وسیع کرنا وغیرہ۔ اصطلاح میں تعریض کنایے کی اس قسم کو  کہتے ہیں جس میں موصوف کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ یہ قسم عموما کسی پر تنقید یا اعتراض کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

7             کنایہ سے صفت مطلوب ہونا

8             کنایہ سے کسی امر کا نفی/اثبات مطلوب ہونا:         کنایہ کی اس قسم میں کسی بات کا حکم یا اس کی نفی (انکار)  ہوتی ہے۔

21:     اس شعر میں موجود کنایہ کی وضاحت کریں

اس شعر میں ایک ٹوکری مٹی کی صورت میں کنایہ ہے جس سے مراد انسانی جسم کا بوجھ ہے۔ جب کہ ٹوکری بھر مٹی کا معنی حقیقی معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے مگر یہاں اپنے مجازی معنوں یعنی انسانی جسم کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

22:     جان کے جسمِ خاک سے تنگ آنے سے کیا مراد ہے؟

جان کے جسمِ خاک تنگ آنے سے یہ مراد ہے  کہ  اب اس جسم اور جان میں اتنی ہمت نہیں رہی کے دنیا کے غم اور درد مزید برداشت کر  سکے۔ ان غموں کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اب موت آسان لگتی ہے۔

؎           اب تو گھبرا کے  یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے            مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

23:     ٹوکری مٹی ڈھونے سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

ٹوکری مٹی بطور کنایہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ شاعر کی زندگی اذیت بھری ہے اور اس سے اس جسم کا بوجھ مزید برداشت نہیں ہو سکتا اور وہ زندگی سے بہت تنگ ہے۔ یہاں ٹوکری مٹی سے مراد انسانی جسم ہے۔

24:     شاعر کس چیز کا شکوہ کر رہا ہے؟ / شاعر زندگی سے کیوں تنگ ہے؟

            شاعر اس بات کا شکوہ کر رہا ہے کہ اس کی زندگی بہت مشکل ہو  چکی ہے اور اب تو جسم بھی اک بوجھ سا محسوس ہونے لگا ہے۔

25:     شعر کا مفہوم تحریر کریں

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ میں زندگی کی مشکلات، درد و غم اور مصائب سے تنگ آ چکا ہوں۔ ان کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ زندگی سے زیادہ موت آسان لگتی ہے۔ شاعر اس انتظار میں ہیں کہ کب زندگی کا چراغ گُل ہو اور وہ موت کی آغوش میں پہنچیں۔

حوالہ کے اشعار:

؎           مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب  ہم نے                درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

؎           میری قسمت میں غم گر اتنا تھا                           دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

؎           موت کتنی بھی سنگ دل ہو مگر                          زندگی سے تو مہرباں ہو گی

؎           زندگی ہے یا کوئی طوفان  ہے                            ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلےْ

؎           اب تو گھبرا کے  یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے            مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

آلودہ اُس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میرؔ

آبِ حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے

الفاظ معانی (وے : لفظ “وہ” کی جمع، اب متروک ہو چکا ہے، میرؔ کے دور میں مستعمل تھا۔)

اصطلاحات:

متروک: ایسا لفظ جو ماضی میں کسی زبان میں استعمال ہوتا رہا ہو اور اب اس کا استعمال بند ہو چکا ہو، اسے متروک لفظ کہتے ہیں۔

مستعمل:  کسی چیز کا کسی دور میں قابلِ عمل ہونا یا اس کا رواج ہونا۔

26:     شاعر کس گلی کی بات کر رہا ہے؟

شاعر محبوب کی گلی کی بات کر رہا ہے۔ اس شعر میں وہ محبوب کی گلی کی  خاک کی اہمیت بتاتے ہوئے اسے آبِ حیات سے بھی برتر کہہ  رہا ہے۔

27:     آبِ حیات کیا ہے؟َ

آبِ حیات اس پانی کو کہتے ہیں جسے پی کر انسان امر ہو جاتا ہے، یعنی اس کو کبھی موت نہیں آتی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی کوہِ قاف میں ہے اور حضرت خضر علیہ السلام سکندر ذوالقرنین کو یہاں تک لائے تھے مگر انھوں نے پانی پینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے آبِ حیات پی رکھا ہے اس لیے انھیں قیامت تک موت نہیں آئے گی۔

28:     شاعر محبوب  کی گلی کا موازنہ کس سے کر رہا ہے ؟

شاعر محبوب کی گلی کا موازنہ آب حیات سے کر رہا ہے، شاعر کے نزدیک اس کے محبوب کی گلی کی خاک  کی اہمیت آبِ حیات سے کہیں بڑھ کر ہے۔

29:     شاعر پاؤں کیوں نہیں دھونا چاہتا؟

شاعر اس لیے پاؤں نہیں دھونا چاہتا کیوں کہ ان پر اس کے محبوب کے قدموں کی خاک لگی ہوئی ہے۔ اور محبوب کی گلی کی خاک اور ا س کی نشانی ہونے کی وجہ سے شاعر کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی میرے پاس آبِ حیات بھی لائے تو اس سے بھی اپنے پاؤں نہیں دھوؤں گا کیوں کہ یہ خاک میرے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔

30:     شاعر محبوب  کی گلی کی خاک کو کس سے بر تر ثابت کر رہاہے؟

شاعر محبوب کی گلی کی خاک کو آبِ حیات سے برتر ثابت کر رہا ہے کیوں کہ وہ آبِ حیات جیسے پانی سے بھی پاؤں نہیں دھونا چاہتا کہ کہیں محبوب کی گلی کی خاک اس کے پاؤں سے نہ اتر جائے۔

31:     آبِ حیات کی کیا خصوصیت ہے؟

            جواب 26

32:     کسی تاریخی واقعہ، شخصیت ، حکایت یا آیت و حدیث کو چند الفاظ میں اس طرح بیان کرنا کہ پڑھنے  والے کے ذہن میں پورا واقعہ آ جائے، صنعت تلمیح کہلاتا ہے۔ صنعت تلمیح سے تعلق رکھنے والے دو اشعار لکھتے ہوئے ان میں استعمال شدہ تلمیحات کے نام تحریر کریں

            ؎           ابنِ مریم ہوا کرے کوئی                                مرے درد کی دوا کرے کوئی

؎           کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں                   ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

            ؎           اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں میرے نزدیک          اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے

33:     اس شعر کا مفہوم تحریر کریں

            اردو شاعری کی روایت بھی ہے اور انسان کی نفسیات بھی کہ، اسے اپنے محبوب سے منسوب ہر چیز کائنات کی دیگر اشیا سے قیمتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ان یادوں، نشانیوں کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔ اس شعر میں بھی ایسی ہی کیفیت کا اظہار ملتا ہے جہاں شاعر یہ دعویٰ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر ان کے پاؤں پر  محبوب کی گلی کی خاک لگ جائے تو وہ انھیں آبِ حیات کے پانی سے بھی دھونا گوارا نہیں کریں گے، کہاں عام پانی سے پاؤں دھونا۔  کیوں کہ شاعر کے لیے یہ محبوب کی نشانی اور یاد ہے اور یہ سب سے قیمتی چیز ہے اور شاعر اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔

 

حوالہ کے اشعار:

؎           کچھ یادگارِ شہر ستم گر ہی لے چلیں                     آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

؎           فردوس کو بھی آنکھ اٹھا کر دیکھتے نہیں                  کس ورجہ سیرِ چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ

؎           یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو                        کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

1 thought on “غزل 2  میر تقی میر”

  1. Pingback: غزل 1 میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!