فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

اگر ہم دنیا کے نظام پر غور کریں تو  ہمیں اس میں ایک یکسانیت نظر آتی ہے۔جابر اور طاقت ور قوتیں ہمیشہ استحصال کرتی نظر آتی ہیں۔ جب بات اپنے مفادات کی ہوتی ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ملک کی حفاظت کی جاتی ہے یا اس پر چڑھائی کر دی جاتی ہے اور عالمی ضمیر خاموش رہتا ہے۔ اور اگربات عالمِ اسلام کی ہو تو یہ عنصر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ فلسطین خاص طور پر اس تعصب و بے حسی کا شکار نظر آتا ہے۔

یہودی ریاست کے قیام کی داغ بیل 1917ء کی بالفور کے تجاویز سے ڈالی گئی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز اس وقت ہوا جب برطانیہ نے جنگِ عظیم اول جیتنے کے بعد فلسطین کو اپنی نو آبادی بنایا۔ برصغیر کی مشہور “تحریکِ خلافت” اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس کے مطابق برطانیہ نے ہند کے مسلمانوں سے عہد کیا تھا کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے نہیں کریں گے مگر اس کی خلاف ورزی کی گئی۔ فلسطین پر برطانوی تسلط کے بعد یہاں یہودیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

1948ء میں اقوام متحدہ نے صیہونی ریاست کے قیام کی منظوری دی جسے عرب ممالک نے مسترد کر دیا۔ صہیونی ریاست کے قیام کو قائداعظم نے بھی مسترد کر دیا تھا۔ اسی دوران عرب اسرائیل جنگ کا آغاز  ہوا۔ اس جنگ میں اردن، شام، لبنان، مصر اور  عراق  نے حصہ لیا  مگر  جنگ بندی کروا دی گئی۔ اس دوران اہلِ مغرب نے کھلم کھلا اسرائیل کا ساتھ دیا اور عربوں کے خلاف مالی، فوجی غرض ہر قسم کی امداد اسرائیل کو فراہم کی۔اس کے بعد عرب اسرائیل تعلقات درست نہیں تھے اور اسرائیل کی بقا ہمیشہ خطرے میں رہی۔ فرنگ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی ریاست عرب ممالک  کے قلب میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔

1967ء میں جب کہ عرب ممالک مل کر اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے کے لیے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو اسرائیل نے مغربی قوتوں کی انٹیلی جنس اطلاعات اور فوجی مدد سے ، عربوں کے حملے سے پہلے ہی اچانک حملہ کر کے  چھ دن کے اندر عربوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ، صحرائے سینا اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔  اس دوران بھی اہلِ فرنگ کا رویہ اسرائیل کی حمایت میں تھا  اور اسے ان قوتوں کی بھرپور معاونت حاصل تھی۔  اس دوران بھی نہ تو اقوام متحدہ کچھ کر سکی نہ دوسری مغربی طاقتوں نے اہلِ فلسطین کی شنوائی کی۔

1973ء میں اسرائیل کے مقدس دن “یومِ کپور” کو مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ان کا مقصد اپنے مقبوضات کو چھڑانا تھا مگر اس میں ناکام رہے کیوں کہ اقوامِ متحدہ کی مداخلت کی وجہ سے دو ہفتوں بعد جنگ رک گئی ۔ اسی طرح 2006 ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے وقت بھی مغرب نے بھرپور انداز میں نہ صرف اسرائیل کا ساتھ دیا بل کہ مسلم ممالک کو بھی  مداخلت سے باز رکھا۔ اس طرح اہلِ فرنگ ہر محاذ اور ہر قدم پر اسرائیل کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔

اسرائیل کے وجود کو شام، عراق اور لیبیا جیسے ممالک سے مسلسل خطرہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرادادوں کو سنا ان سنا کر کے عراق اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے گرد کوئی ایسا مسلم ملک نہ ہو جو اس کے وجود کے لیے خطرہ ثابت ہو۔ اس جنگ میں امریکہ کو نیٹو کی بھرپور مدد حاصل رہی اور مغربی پریشر کی وجہ سے باقی مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔

اقوامِ متحدہ کے دو ریاستی حل کے مطابق یہ علاقہ تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ غزہ، فلسطین (مغربی کنارہ) اور اسرائیل۔

غزہ کی پٹی کی جانب سے اسرائیل کو حماس کی صورت میں مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔2006ء، ،2014،2012  ا اور 2021ء میں دونوں فریقین کے درمیان جنگیں ہوتی رہی ہیں۔

یومِ کپور کی جنگ کے ٹھیک 50 سال بعد 7 اکتوبر 2023  حماس نے اسرائل پر بھرپور حملہ کیا۔ اس کے بعد  سے اسرائیل اور حماس میں شیدید جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کے دوران اہلِ غزہ کے اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں تک پر بمباری کی گئی ہے۔ ان کا کھانا، پانی بند کر دیا گیا اور اب تک محاصرہ جاری ہے۔  انسانی حقوق کیکھلم کھلا خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی جنگی قوانین کے دھجیاں اڑانے کے باوجود اہلِ اسلام کی جانب سے بات مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔اس کی وجہ مغرب نوازی اور ان کا دباؤ ہے۔

ایک طرف تو اہلِ غزہ کا کھانا پانی تک بند ہے دوسری طرف مغرب کی جانب سے اسرائیل کو   مالی امداد سے لے کر فوجی و تکنیکی معاونت تک جاری ہے۔ اور اسرائیل کی حفاظت کے واسطے مغربی قوتوں نے جنگ عظیم دوم کے  بعد پہلی بار اتنی زیادہ بحری قوت اسرائیل کے آس پاس پہنچا دی ہے۔

باطل کے فر و فال کی حفاظت کے واسطے                یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

علامہ اقبال اسرائیل جیسی ریاست کے قیام سے پہلے ہی یہود اور ان کے کارناموں سے واقف تھے۔ وہ شروع سے ہی  نہ صرف یہودیوں کی نفسیات سے  واقف تھے۔ انھیں ا س چیز کا بخوبی ادراک تھا کہ  یہودی کس طرح مغرب کو اپنے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور وہ یہودیوں کی مرضی کے بغیرکچھ بھی نہیں سمجھ سکتے۔

اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھی تو اقوامِ متحدہ کی بار بار کی قراردادوں کا ویٹو ہونا، مغربی بحری قوت کا آنا اور اسرائیل کی ہر لحاظ سے امداد کرنا اسی چیز کو ظاہرکرتا ہے کہ   یورپ  کی جان یہود کے پنجے  میں ہی ہے۔ وہ یہود  کی مرضی کے بنا کچھ نہیں کر سکتے اور یہود کی  حفاظت کے واسطے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

          زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ              میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں  ہے ، نہ لندن میں  فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ  یہود میں ہے

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!