اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کی ہر جگہ رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتا ہے۔ اسے ذہانت جیسی قوت عطا کی گئی جس کی مدد سے وہ نہ صرف اپنے  لیے بہترین کا فیصلہ کر سکتا ہے بلکہ   نقصانات کا ادراق بھی کر سکتا ہے ۔  اس ذہانت کی مدد سے وہ اپنی زندگی میں بھی آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔  انسان نے قدیم دور سے لے کر آج تک اپنی زندگی میں مسلسل ترقی اور بہتری لائی ہے۔ یہاں تک کہ انسان اپنا کام کرنے  کے زمانے سے آغاز کرتا ہے اور اب ایسی مشینیں ایجاد کر چکا ہے، جو خود کار طریقے سے اس کے کام انجام دیتی ہیں۔ یہی وہ علم ہے جس کے حوالے سے خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ہم نے انسان کو وہ بھی سکھایا جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔

ترجمہ: “جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔”

موجودہ دور کو “ڈیجیٹل ایج” کہتے ہیں۔  یہ وہ دور ہے جہاں تمام کام خود کار طریقے سے کمپیوٹر سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی انسان ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ اس نے ایسی مشینیں بنائی ہیں جو اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کام انجام دیتی ہیں۔  کمپیوٹر آغاز میں تو انسان کی دی گئی معلومات کے تابع ہوتا تھا اور اس کے مطابق کام انجام دیتا تھا، مگر رفتہ رفتہ انسان نے اس کو بھی قابلیت اور ذہانت دینے کی کوشش کی ۔کمپیوٹر کو خود سے فیصلہ کرنے، سوچنے ،سمجھنے اور ہر چیز خود کار طریقے سے اپنی مرضی کے مطابق انجام دینے کی یہی صلاحیت دینے کا نام، مصنوعی ذہانت یعنی “آرٹیفیشل انٹیلیجنس “ہے۔

جہاں ہر چیز کے فوائد ہوتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ اس مضمون ہم مصنوعی ذہانت کے نقصانات کا ہی جائزہ لے رہے ہیں۔

انسان کی زندگی کی سب سے اہم چیز اس کی ذاتی اور نجی زندگی ہے جس میں کسی کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ مگر موجودہ دور میں ایسے سافٹ ویئر سامنے آ چکے ہیں جن کی مدد سے انسان کے سوشل میڈیا پر بھیجی گئی کوئی بھی تصویر تبدیل کر کے اس کو ویڈیو  میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے انسان کی آواز کی مدد سے  آڈیو  بنائی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں ، یہ  سافٹ وئیر  ایسی ویڈیوز بھی بنا سکتے ہیں  جو کسی بھی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتیں۔  آج کل تو ایسے سافٹ ویئر آچکے ہیں جو کسی انسان کی  ایک تصویر کی مدد سے اس کے حال، ماضی اور مستقبل کی تصویر بنا کر بھی دے سکتے ہیں۔ اس سافٹ وئیر کے مطابق وہ انسان  کون سی عمر میں کیسا نظر آئے گا ، بھی دیکھا جا سکتا ہے۔مصنوعی ذہانت کے نقصانات میں سے پہلا نقصان یہی  ہے کہ انسان کھرے اور کھوٹے کی تمیز نہیں کر سکے گا ۔کوئی بھی ویڈیو  یا آ ڈیو جعلی ہے یا نہیں، اس میں تمیز نہیں کر سکے گا ۔ بلیک میل کرنے والے افراد انہی ویڈیوز سے مدد لے کر انسان کی ذاتی زندگی کہ وہ گوشے بھی سامنے لا سکتے ہیں جو اس نے کبھی کیے ہی نہیں ہوں گے۔ اس طرح انسانوں کی بربادی اور بلیک میلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔  ہمارے  ملک جیسے تیسری دنیا کے  ملک میں تو اس چیز کے بہت زیادہ خدشات ہیں، جہاں پر ان لوگ بیٹیوں کو عزت کے نام پر شک کی بنا پر  قتل کر دیتے ہیں۔  ایسی صورت میں معصوم لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہ جانے کیا سے کیا ہو سکتا۔ مغربی مفکر ڈیو واٹرز اس حوالے سے کہتے ہیں:

“Deepfakes and misinformation are just two of the ways AI could have major negative impact on fake news.” ~Dave Waters

آج کل سب کچھ آن لائن ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے کاروبار اسی آن لائن پیمنٹ سسٹم سے منسلک ہو چکے ہیں۔ ان کے بینکنگ اکاؤنٹس بھی ان لائن ہیں۔ کسی بھی قسم کے مصنوعی ذہانت کے حامل سافٹ وئیر کی مدد سے ہیکرز باآسانی ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں وہ  مختلف “Apps” کی مدد سے موبائل فون میں موجود انسان کا ڈیٹا بھی لے سکتے ہیں۔ اس میں  انسان کی نجی زندگی کی معلومات، تصاویر، وڈیوز کے ساتھ ساتھ  اس کی کاروباری زندگی اور بینک اکاؤنٹس  کی معلومات بھی ہو سکتی ہیں۔  اس طرح  انسان کے مالی معاملات بھی محفوظ نہیں اور یہ کسی بھی بڑے مالی حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔

انسان کی سوشل میڈیا چیٹ۔ وٹس ایپ، فیس بک یہاں تک کہ گوگل کروم ،یوٹیوب ،ٹوئیٹر وغیرہ پر انسان کی تمام ایکٹیویٹی ، سب کچھ اس کے جی میل اکاؤٹ سے منسلک ہے۔  جب یہ کسی مصنوعی ذہانت  کے حامل سافٹ وئیر سے منسلک کر دیے جاتے ہیں  تو وہ سافٹ ویئر بھی ان تمام  تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح انسان کی تمام ہسٹری اور  اس کی تمام ایکٹیویٹی ، سب کچھ سافٹ ویئر کے ذریعے سے کسی اور جگہ موجود سرور کے ڈیٹا بیس میں سٹور ہو رہا ہوتا ہے۔ اس طرح  انسان بظاہر تو”ChatGPT” یا کسی اور سافٹ ویئر سے استفادہ کر رہا ہے، مگر حقیقت میں اس کا اپنا ڈیٹا بھی وہاں پر جا چکا ہے۔ جو کہ مستقبل میں کسی بھی وقت اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے اور اس کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت ہی کی مدد سے آج کل ایسے خودکار روبوٹ بنائے جا رہے ہیں جو گھروں کے کام کاج کرتے ہیں۔ اور اسی جب ایک مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والا روبوٹ اچانک خود سے کام کرنا چھوڑ دے اور بغاوت کر دے  یا اس پر کسی قسم کا سائبر اٹیک ہو جائےیا پروگرام  میں کوئی ایسی  “Bug”ہو جو اس کے سسٹم کو توڑ پھوڑ  کی طرف لے جائے  تو اس سے بھی گھریلو زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔

“Listening to Bill Gates, Elon Musk and Stephen Hawking talk about artificial intelligence reminds me of the Jurassic Park scene where they talk about chaos theory.” ~Dave Waters

 آج کل دفاعی شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کیا جا رہا ہے جہاں خود کار مشین گنوں سے لے کر ڈرون او روبووٹ  تک تیار کیے جا رہے ہیں۔   اگر کوئی خود کار ڈیفنس سسٹم  ہیک کر لیا جائے یا  کسی تکنیکی خرابی کی بنا پر  اپنے ہی ملک کے خلاف ہو جائے تو اس ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے اور کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔

تعلیمی میدان میں دیکھا جائے تو ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرز کی مدد سے لوگ مضامین اور  آرٹیکل سے لے کر سافٹ ویئر تک بنوا رہے ہیں۔ طلباء اپنی تمام اسائنمنٹیں ان کی مدد سے کر رہے ہیں۔ وہ سافٹ ویئر ان کو پروگرامز، سوالات ،فزکس کے نمیر یکل، کیمسٹری کی مساواتیں وغیرہ،  سب کچھ حل کر کے دے رہے ہیں۔ اس طرح طالب علم اپنا کام خود کرنے کے بجائے مشین سے سہارا لے رہے ہیں۔ اس  سے طلبا  کی اپنی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور ساتھ میں ان کے لیے یہ کاپی پیسٹ کرنا، اپنے مضمون سے دور ہونے کی بھی نشان دہی کر تا ہے۔ یوں  انسان اس  ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر کے تعلیمی میدان میں بھی اپنے لیے مسائل پیدا کر رہاہے۔ کیوں کہ جب انسان خود کسی چیز سے واقف نہیں اور اس نے کسی مشین سے مدد لے کر کوئی بھی چیز بنائی ہے، تو وہ اس کو بہتر انداز میں نہیں سمجھ سکتا ۔ عملی زندگی میں یہ اس چیز اس  طالب علم کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس طرح  مصنوعی ذہانت  پر  بہت زیادہ انحصار تعلیم کے شعبے کو بھی بہت برے طریقے سے متاثر کر رہا ہے۔ ساتھ میں جب طلبا اپنے دماغ کو سست کرتے ہوئے اس سے کا م نہیں لیں گے تو ان کی دماغی  کارکردگی بھی متاثر ہو گی۔

“With AI we can’t be like ostriches sticking our heads in the sand.” Chuck Schumer

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی اور قومی سطح تک ہر جگہ مسنوعی ذہانت انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کہیں پر بھی اگر اس میں کسی قسم کی خرابی یا بغاوت کی صورت میں انسان کا پورا معاشرہ تہس نہس  ہو سکتا ہے۔  یہی نہیں چھوٹے پیمانے پر لوگوں کی انفرادی زندگی میں بھی   یہ نقصانات رکھتی ہے اور اجتماعی و قومی مفادات کی حد تک بھی اس میں خدشات و خطرات موجود ہیں۔ ہمیں مصنوعی ذہانت اور انسان کی ایجادات   پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان سہولیات کے باوجود اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے اپنے کام خود کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ ٹیکنالوجی جہاں اپنے   فوائد لا رہی ہے، وہیں اس کے ان دیکھے نقصانات اور خدشات بھی ہیں۔ جو انسان اور اس نسلِ انسانی کے مستقبل کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔

  • “There is some chance that is above zero that AI will kill us all. I think it’s low. But if there’s some chance, I think we should also consider the fragility of human civilization.” ~Elon Musk
error: Content is protected !!