نظم یہ سڑکیں

نظم: یہ سڑکیں

زمیں پر آدمی کی اولیں ایجاد یہ سڑکیں                       پرانے وقت کے بغداد کی اولاد یہ سڑکیں

مرمت کی حدوں سے زائد المیعاد یہ سڑکیں                            ہمارے شہر کی مادر پدر آزاد یہ سڑکیں

بظاہر صید، لیکن اصل میں صیاد یہ سڑکیں

1:      زمیں پر آدمی کی اولیں ایجاد کیا ہے؟

شاعر کے مطابق زمین پر آدمی کی پہلی ایجاد سڑکیں ہیں کیوں کہ یہ اپنی مقرر عمر سے اتنی زائد المیعاد ہیں کہ محسوس ہوتا ہے، سب سے پہلے انسان نے سڑکیں ایجاد کیں اور اس کے بعد ان کی مرمت بھول گیا۔

2:      شاعر سڑکوں کو پہلی ایجاد کیوں کہہ رہا ہے؟

شاعر سڑکوں کو پہلی ایجاد اس لیے کہہ رہا ہے کیوں کہ یہ اپنی عمر پوری کر چکی ہیں اور ا س کے بعد حکومت نے ان کی تعمیر و مرمت کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ سڑکوں کی حالت  دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی کی پہلی ایجاد ہیں۔

3:      سڑکوں کے پرانے وقت کے بغداد کی اولاد سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

تاریخ میں بغداد کی بہت اہمیت ہے۔ یہ عراق کا دارالحکومت اور قدیم شہر ہے۔ ہلاکو خان کے اسے مکمل تباہ کرنے کے بعد بھی یہ شہر دوبارہ آباد ہو چکا ہے۔ اتنی تباہیوں کے باوجود یہ شہر زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر سڑکوں کی خستہ حالی دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ شاید یہ سڑکیں بھی اسی پرانے بغداد کے دور کی ہیں، جس طرح وہ تباہ ہوتا رہا ہے،اسی طرح سڑکیں بھی تباہ حال ہیں۔ دوسرے معنوں میں سڑکوں کی حالت سے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بھی بغداد جتنی قدیم ہیں۔

4:      مرمت سے زائد المیعاد ہونے سے کیا مراد ہے؟

جس طرح ہر چیز کے استعمال کی مدت مقرر ہوتی ہے جسے انگریزی میں Expiry Date کہتے ہیں۔ اسی طرح سڑکوں کی بھی مدت ہوتی ہے۔ وہ مدت گزرنے کے بعد بھی سڑکوں کی مرمت نہیں کی گئی اس لیے شاعر انھیں مرمت سے زائد المیعاد کہہ رہے ہیں۔

5:      سڑکیں مادر پدر آزاد کیوں ہیں؟

مادر پدر آزاد محاورہ ہے اس کا معنی ایسا انسان ہوتا ہے جسے نہ شرم و حیا ہوتی ہے نہ کسی کی پروا، یہاں تک کہ والدین کی عزت کا خیال بھی نہیں ہوتا۔ یا ایسا انسان جو کسی کی بھی نہ سنتا ہو بل کہ اپنی مرضی کرتا ہو۔ چوں کہ سڑکوں کی مرمت نہیں کی گئی لہٰذا ان پر گڑھے ہیں تو کہیں کھائیاں، یہی وجہ ہے کہ شاعر انھیں مادر پدر آزاد کہہ رہے ہیں کہ جہاں سے دل کرتا ہے گڑھے نکل رہے ہیں تو جہاں سڑکوں کا دل کرتا ہے کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

6:      ‘مادر پدر آزاد” کون سی صنعت ہے؟

مادر پدر آزاد محاورہ ہے، لہذا یہ صنعت ایراد المثل ہے۔ ایراد المثل سے مراد، شعر میں محاورہ یا ضرب الامثال استعمال کرنا ہے۔

(مادر: ماں،پدر: باپ  : صنعت تضاد)

7:      “صید، صیاد” : کس صنعت کی طرف اشارا ہے، تعریف کریں اور مثال لکھیں

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک ہی مادے سے بنے ہوں، صنعت اشتقاق کہلاتی ہے۔ لہٰذا “صید، صیاد” صنعت اشتقاق ہے۔  (صید، صیاد: صنعت تضاد)

8:      آخری مصرعے کا مفہوم بیان کریں

صید کا معنی شکار جب کہ صیاد کا معنی شکار کرنے والا ہے۔ یہاں شاعر یہ مراد لے رہے ہیں کہ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم ان ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ہماری لاپروائی اور سستی کا فائدہ اس طرح اٹھاتی ہیں کہ ہمارا سفر بجائے پرسکون ہونے کے اذیت ناک ہو جاتا ہے۔

دامِ بارانِ رحمت گرد کا گرداب ہوجانا                      گڑھوں کا پھیل کر تالاب در تالاب ہو جانا

بپھر  کر نالیوں کا “رستم و سہراب ” ہو جانا                     محلے کے گلی کوچوں کا زہرہ آب ہو جانا

مہینوں تک برنگ ہر چہ بادا باد  یہ سڑکیں

 

9:      بارش کے دوران سڑکوں کی کیا حالت ہوتی ہے؟

بارش کے دوران سڑکوں کے گڑھوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے وہ تالاب کامنظر پیش کرنے لگتی ہیں۔ جب کوئی گاڑی گزرتی ہے تو گڑھوں کے نہ نظر آنے کی وجہ سے جمپ لگنے سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا رستم پہلوان نے زوردار قسم کا مُکہ مارا ہو۔ دوسرے معنوں میں انسان پھسل کر اس طرح گرتا ہے جیسے رستم یا سہراب نے اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو۔

10:     بارش میں گڑھے کیا صورت اختیار کر لیتے  ہیں؟

بارش میں گڑھے تالاب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں کیوں کہ ان میں پانی بھر جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی کئی گڑھوں کا پانی مل کر تالاب کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔

11:     رستم و سہراب کون تھے؟

رستم و سہراب مشہور ایرانی پہلوان تھے جن  کی بہادری برصغیر اور ایران میں ایک علامت بن چکی ہے۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ افسانوٰی کردار تھے اور باپ بیٹا تھے۔ مشہور ایرانی شاعر فردوسی نے اپنی کتاب “شاہ نامۂ فردوسی/ شاہ نامۂ ایران” میں ان کا ذکر کیا ہے۔

12:     “رستم و سہراب” کون سی صنعت ہے، وضاحت کریں

شعر میں مشہور تاریخی شخصیت کا افسانوی کردار کا ذکر کرنا صنعت تلمیح کہلاتا ہے۔ رستم و سہراب اپنی بہادری کی وجہ سے برصغیر اور ایران میں ایک علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا “ڑستم و سہراب” صنعت تلمیح ہیں۔

13:     محلے کے گلی کوچے کیسے زہرہ آب ہوتے ہیں؟

زہرہ آب محاورہ ہے جس کے معنی ہیں خوف زدہ ہونا۔ اس بند کے تناظر میں  اس کا یہ معنی ہیں کہ بارش کے بعد لوگ باہر جانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم پھسل کر گر ہی نہ جائیں۔ یا گرنے کی وجہ سے ہڈیاں وغیرہ نہ ٹوٹ جائیں۔ لہٰذا بارش کے بعد سڑکیں خوف کی علامت بن جاتی ہیں۔

14:     زہرہ آب ہونے سے شاعر کیا مراد لے رہے ہیں؟

جواب 13

15:     “ہر چہ بادا باد ” کا مفہوم بیان کریں

ہر چہ بادا باد فارسی کا جملہ ہے جس کا  یہ معنی ہے،” جو ہو گا دیکھا جائے گا”۔ اس بند کے تناظر میں شاعر ہمارے رویے کو بیان کر رہے ہیں کہ ہمیں کسی نقصان کی پروا نہیں ہوتی اور نہ ہی حفظِ ما تقدم (کسی حادثے کے ہونے سے پہلے اس سے بچنے کی کوشش کرنا) کے طور پر اقدام اٹھاتے ہیں۔ بل کہ ہم مصیبت برداشت کرتے  رہتے ہیں، ہماری یہ  سوچ ہوتی ہے کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

16:     آخری مصرعے کی وضاحت کریں

جواب 15

بہر گامے سڑک کھا جانے والی کھائیاں دیکھو                 چٹختے راستوں کی ٹوٹتی انگڑائیاں دیکھو

کھڑی اونچائیوں کے پیٹ میں گہرائیاں دیکھو                 گڑھوں کی جابجا بہزادیاں، چغتائیاں دیکھو

نقوشِ مانی و چغتائی و بہزاد یہ سڑکیں

 

17:     کھائیوں کی کیا کیفیت بتائی جا رہی ہے؟

کھائیوں کے حوالے سے شاعر بتا رہے ہیں کہ کہیں تو اتنی بڑی بڑی کھائیاں ہیں جن کی وجہ سے سڑک کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور صرف کھائیاں  نظر آتی ہیں۔

18:     راستوں کی انگڑائیوں سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

جس طرح انسان انگڑائی لیتا ہے تو اس کا جسم بل کھاتا ہے، یہاں انگڑائیوں کی منظر نگاری  کرتے ہوئے شاعر سڑک پر کھائیوں کی کیفیت بتا رہے ہیں کہ کہیں سے سڑک اونچی ہے تو کہیں سے نیچی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ سڑک بھی انگڑائیاں لے رہی ہے۔

19:     تیسرے مصرعے میں کون  سی صنعت اور کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

تیسرے مصرعے میں “اونچائیوں” اور “گہرائیوں” کی صورت میں معنوی تضاد پایا جاتا ہے۔ شعر میں متضاد معنی کے حامل الفاظ کا استعمال صنعت تضاد کہلاتا ہے اس لیے یہاں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

20:     بہزاد کے بارے میں آپ کو کیا معلوم ہے؟

بہزاد ایران کے مشہور مصوروں میں سے ایک ہیں۔ پورا نام کمال الدین بہزاد تھا۔ وہ مختصر تصاویر بنانے کے ماہر تھے۔ انھوں نے شیخ سعدی کی مشہور نظمیہ کتاب بوستان اور نظامی کی تصانیف کی مصوری کی۔

21:     چغتائی سے شاعر کیا مراد لے رہا ہے؟

چغتائی کا پورا نام عبدالرحمٰن چغتائی تھا۔ پاکستان کے مشہور مصوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نےسندھ، ہندو ازم، اسلام، مغل آرٹ اور پنجابی تہذیب کے حوالے سے تصاویر بنائیں۔ انھیں مصورِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔

22:     مانی کون تھا؟

مانی تیسری صدی کا مشہور ایرانی مصور تھا۔ انھوں نے مصوری کو کمال تک پہنچایا۔ اپنے  دور میں پورے ایران میں مشہور تھے اور ہر کوئی ان کے فن کی تعریف کرتا تھا۔

23:     اس بند میں موجود نام، ایک ہی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں، کون سی صنعت بنے گی؟

کسی شعر میں ایک ہی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یا اشیا کا ذکر اس طرح کرنا کہ ان میں تضاد نہ ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتا ہے۔ اس شعر میں “بہزاد، مانی، چغتائی” کی صورت میں فنِ مصوری کے مشہور افراد کا ذکر ہے اس لیے یہ صنعت مراعات النظیر ہے۔

24:     مانی، بہزاد، چغتائی، تاریخی شخصیات ہیں، صنعت کی تعریف کریں

شعر میں مشہور تاریخی شخصیات کا ذکر اس طرح کرنا کہ پوری تاریخ/واقعہ پڑھنے والے کے ذہن میں آ جائے، صنعت تلمیح کہلاتی ہے۔ اس شعر میں مانی، بہزاد، چغتائی کی صورت میں صنعت تلمیح ہے۔

25:     گڑھوں کی بہزادئیوں اور چغتائیوں سے کیا مراد ہے؟

جس طرح فنِ مصوری میں مختلف رنگوں سے مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں اور ان کا کوئی نہ کوئی معنی ہوتا ہے۔ اسی طرح سڑکوں پر بنے گڑھوں اور ان کے مختلف رنگوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ گویا کسی مصور نے یہاں آ کر اپنا کمال دکھایا ہے اور سڑک پر اس طرح مصوری کی ہے کہ گڑھوں اور کھائیوں کا گمان ہوتا ہے۔

26:     سڑکوں کو کیوں مانی، چغتائی اور بہزاد کے نقوش کہا جا رہا ہے؟

شاعر سڑکوں کو اس لیے نقوش مانی کہہ رہا ہے کہ جس طرح مصوری میں مختلف ڈیزائن بنا کر اس کے مختلف معانی مراد لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سڑکوں پر بنی کھائیوں سے گمان ہوتا ہے  کہ کسی زمانے میں مانی، چغتائی اور بہزاد یہاں مصوری کرتے رہے ہیں اور اب ان کے تھوڑے بہت نام و نشان کھائیوں کی صورت میں باقی ہیں۔

ہم ان سے حلم و صبر و شکر کا پیغام لیتے ہیں                    کہ جب چلتے ہیں کم از کم خدا کا نام لیتے ہیں

یہ کام آئیں نہ آئیں ہم انھی سے کام لیتے ہیں                  “گلوں سے خار بہتر ہیں، جو دامن تھام لیتے ہیں”

ہم ان سے مطمئن ہیں اور ہم سے شاد یہ سڑکیں

27:     “حلم، صبر، شکر” کا  ایک ہی قبیلے یعنی اخلاق حسنہ سے تعلق ہے ،  صنعت کی تعریف کریں

شعر میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہو  اور ان میں تضاد کے علاوہ کوئی نسبت ہو، صنعت مراعات النظیر کہلاتی ہے۔ اس بند میں “حلم، صبر، شکر” کی صورت میں صنعت مراعات النظیر استعمال ہو رہی ہے۔

28:     سڑکوں سے کس طرح حلم، صبر و شکر کا پیغام ملتا ہے؟

انسان ہمیشہ تکلیف پر شکوہ شکایت کرتا ہے۔ جب کہ صبر و شکر کی بہت فضیلت ہے۔ سڑکوں کے معاملے میں یہ بات الگ نوعیت کی ہے۔ وہاں لوگ شکوہ شکایت کرنے کے بجائے سڑکوں کی اسی حالت پر مطمئن نظر آتے ہیں۔ یوں سڑک پر سفر کے دوران   جیسے ہی گاڑی کو جھٹکا لگتا ہے تو انسان خدا کا نام لیتا ہے اور ا س تکلیف کو برداشت کرتا ہے، ساتھ میں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے اس وجہ سے دل اور زبان پر دعا ہوتی ہے۔ اس طرح سڑکوں سے حلم، صبر و شکر کا پیغام ملتا ہے۔

29:     ان سڑکوں پر سفر کے  وقت خدا کا نام کیوں لیتے ہیں؟

جواب 28

30:     دوسرے شعر میں موجود صنعت کی نشان دہی کریں

دوسرے شعر میں علامت واوین (“”) استعمال ہو رہی ہے۔  شعر میں جہاں یہ علامت استعمال ہوتی ہے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ شاعر نے کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرع اپنے مضمون کی مناسبت سے اس میں شامل کیا ہے۔ اس کو صنعت تضمین کہتے ہیں۔ یہاں شاعر نے صنعت تضمین کا استعمال کیا ہے۔

31:     “آئیں، نہ آئیں” اور “گل، خار” کی صورت میں کون سی صنعت ہے؟

“آئیں، نہ آئیں” اور “گل، خار” آپس میں متضاد الفاظ ہیں۔ اس لیے یہاں صنعت تضاد استعمال ہوئی ہے۔

32:     سڑکوں کے کام نہ آنے کے باوجود شاعر کس طرح ان سے کام لینے کا کہہ رہا ہے؟

سڑکوں کے کام نہ آنے کے باوجود ان سے کام لینے سے یہ مراد ہے کہ سڑکوں کی حالت اتنی تباہ شدہ ہے کہ وہ قابلِ استعمال نہین رہیں، کیوں کہ ان کی مرمت کی مدت گزر چکی ہے۔ اس کے باوجود ہم ان ہی سے سفر کا کام لے رہے ہیں۔

33:     شاعر سڑکوں کو خار کیوں کہہ رہا ہے؟

پھول نرمی، خوشبو اور محبت کی علامت ہے جب کہ خار تکلیف، درد اور دکھ کی علامت ہیں۔ اس شعر میں شاعر یہی کہہ رہے ہیں کہ بے شک ان پر سفر سے تکلیف ہوتی ہے مگر سفر میں یہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہماری مددگار ہیں۔ لہذابہت عرصہ بعد بننے والی سڑکوں سے یہی بہتر ہیں کہ ہمارے کام تو آ رہی ہیں۔

34:     خار کی کیا خوبی ہے؟ / خار ، گل سے کیوں بہتر ہیں؟

گل یعنی پھول ہمیشہ ساتھ نہیں دیتے، مرجھا بھی جاتے ہیں اور بکھر بھی جاتے ہیں۔ جب کہ خار، بے شک تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر ان کی وفا یہ ہوتی ہے کہ ہمیشہ ساتھ دیتے ہیں نہ کہ دامن چھڑا کر چلے جاتے ہیں۔  خار کی وفا کی(ہمیشہ ساتھ نبھانے کی) اسی خوبی کی وجہ سے خار، گل سے بہتر ہیں۔

35:     شاعر سڑکوں سے کیوں مطمئن ہے؟

شاعر سڑکوں سے اس لیے مطمئن ہیں کہ جیسی بھی ہیں، ہمارے کام تو آ رہی ہیں۔ بے شک سفر تکلیف دہ ہوتا ہے مگر اس میں مددگار یہی سڑکیں ہیں۔ اسی وجہ سے شاعر اس حالت کے باوجود سڑکوں سے مطمئن ہے۔

36:     سڑکیں کس طرح ہم سے شاد ہیں؟

سڑکیں اس طرح ہم سے شاد ہیں کہ ان کی بری حالت کے باوجود شکوہ، شکایت نہیں کی جا رہی بل کہ ٹوٹی ہونے کے باوجود انسان ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کی حالت بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔ لہذا دونوں ایک دوسرے کی حالت سے مطمئن ہیں۔

 

37:     نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں

یہ نظم سید ضمیر جعفری کی ہے جو کہ مزاح نگار تھے۔ ان کی شاعری سادگی ، لطافت و ظرافت کا نمونہ ہے۔ اس نظم میں وہ مزاحیہ انداز میں اپنے ملک میں سڑکوں کی بری حالت کو بیان کرتے ہیں۔ وہ مختلف علامتوں اور تلمیحات کی مدد سے اس انداز میں سڑکوں کی حالت بیان کرتے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ مزاح کی تصویر بھی کھینچ جاتی ہے۔ وہ سڑکوں پر موجود گڑھوں کو فنِ مصوری کے شاہ کار اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

شاعر کا تعارف”     پورا نام سید ضمیر حسین جعفری تھا۔ اردو کے مشہور مزاح نگار شاعر ہیں۔ انھوں نے کئی ترانے اور نغمے  بھی لکھے۔ان کی شاعری میں مزاح کا دھیما  پن پایا جاتا ہےاور اسلوب کی تہہ داری اور خوب صورتی ان کی طنزیہ شاعری کو منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ان کی مشہور نظموں میں بفے ڈنر،  شہر کا بڑا بازار، سابق منسٹر، ضمیر کا گھر، پرانی موٹر، وبائے الاٹمنٹ وغیرہ ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!