جواب شکوہ بند 7 SLO

بند 7 (ص190)

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے

حرم کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

 

94:   “الحاد سے دل خوگر ہیں” کی وضاحت کریں

الحاد سے دل خوگر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت بھلا دی ہے اور وہ کفریہ تہذیب  وتمدن اور فیشن کو پسند کرنے لگے ہیں۔

95:   پیغمبرﷺ کی رسوائی کا باعث کون ہے؟

امتی پیغمبر ﷺ کی رسوائی کا باعث ہیں۔

96:   امتی کیسے پیغمبر کی رسوائی کا باعث ہیں؟

امتی آپ ﷺ کی سنت کو بھلا کر، کفریہ عادات کو اپنا کر اپنے پیغمبر ﷺ کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔

97:   بت شکن اور بت گر، کون کون سی صنعت ہیں۔ تعریف کریں

بت گر اور بت شکن متضاد الفاظ ہیں لہذا یہ صنعت تضاد ہے۔

 98:   براہیم اور آزر کون سی شعری اصطلاح ہیں؟ وضاحت کریں

براہیم اور آزر کے پیچھے مکمل تاریخی داستانیں ہیں  اور کسی بھی تاریخی واقعہ کو چند الفاظ میں بیان کرنا صنعت تلمیح کہلاتا ہے، لہذا یہ صنعت تلمیح ہیں۔

 99:   پدر،پسر: کون سی صنعت ہیں؟

پدر اور پسر متضاد الفاط ہیں لہذا یہ صنعت تضا دہے۔

 100: براہیم سے کیا مراد ہے؟ نیز قواعد کی رو سے وضاحت کریں

قواعد کی رو سے براہیم صنعت تلمیح ہے۔ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔

101:  آزر کون ہے؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا جو کہ بت تراشتے تھے۔

102:  “تھا براہیم پدر، پسرِ آزر ہیں” کی وضاحت کریں

اس سے مراد یہ ہیں کہ پہلے والے مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے تھے اور اللہ تعالی کی رضا اور حکم کو سب بتوں اور خواہشات پر ترجیح دیتے تھے مگر اب کے مسلمان آزر کے پیروکار ہیں یعنی تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

103:  آخری شعر میں استعارہ کیسے استعمال ہوا ہے؟ / بادہ آشام، بادہ، خم کس طرح استعارہ ہیں؟

آخری شعر میں بادہ آشام، بادہ، خم، حرم کعبہ اور بت کی صورت میں استعارہ استعمال ہوا ہے۔

 104: “حرم کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے” کی وضاحت کریں

اس مصرعے میں استعارہ استعمال ہوا ہے جس کا معانی یہ ہے کہ جدید دور کے مسلمانوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور وہ دنیا پرست ہو چکے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح دنیاوی آسائش و مال و دولت ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری۔

105:  تم سے کون لوگ مراد ہیں؟

تم سے مراد موجودہ دور کے مسلمان ہیں۔

106:  یہاں “بت” کس چیز کو کہا جا رہا ہے؟

یہاں بت دل میں پیدا ہونے والی خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں کو کہا جا رہا ہے۔

107:  حرم کعبہ کے نئے ہونے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ پہلے والے باعمل اور متقی مسلمان اب اس دنیا سے جا چکے ہیں جن کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی ا ور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی اور اطاعت ہوتا تھا۔ یہ جدید مسلمان اپنا مقصد زندگی بدل چکے ہیں لہذا ان کی ترجیحات، زندگی کا مقصد اور سیرت بالکل نئی ہے۔

108:  موجودہ مسلمانوں کے پسر آزر ہونے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے بت شکنی چھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالی کی اطاعت کے بجائے مادیت پرستی اور دنیا میں کھو گئے ہیں۔ پہلے والے مسلمان اپنی خواہشات کے بتوں کے غلام ہونے کے بجائے اللہ تعالی کا حکم مانتے تھےجب کہ یہ اس دنیا اور اس کی رنگینیوں میں کھو چکے ہیں۔

109:  کس کے ہاتھ بے زور ہیں اور کیوں؟

مسلمانوں کے ہاتھ بے زور ہو چکے ہیں کیوں کہ یہ اب موت سے ڈرتے اور دنیا سے پیار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ بزدل ہو چکے ہیں۔

110:  علامہ اقبال مسلمانوں کو بت گر کیوں کہہ رہے ہیں؟

کیوں کہ پہلے دور کے مسلمان  ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی راہ میں آنے والی ہر قوت سے ٹکرا جاتے تھے اور اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے تھے جب کہ موجودہ مسلمان اپنی خواہشات کے بتوں کے غلام ہو چکے ہیں یا اپنی خواہشات کی پیروی کر کے بت گری کا ثبوت دے رہے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!