جواب شکوہ بند 5 (ص190)

بند 5 (ص190)

آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشک بےتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کِیا حسن ادا سے تو نے

ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

 

 59:    کہاں سے آواز آئی؟     

آسمان سےآواز آئی

 60 :   کس کا افسانہ غم انگیز ہے؟

یہاں لفظ ‘افسانہ’ بطور استعارہ استعمال ہو رہا ہے جس کا معانی علامہ اقبال کی نظم ‘شکوہ’ لی گئی ہے۔ لہذا نظم شکوہ غم انگیز ہے۔

 61:   کون سا افسانہ غم انگیز ہےَ؟

افسانہ کا لفظی معانی کہانی ہے۔ کیوں کہ اس بند میں لفظ افسانہ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے لہذا اس سے مراد علامہ اقبال کی نظم شکوہ ہے۔ نظم “شکوہ” میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کو درد ناک انداز میں بیان کیا ہے اس لیے اس کو غم انگیز افسانہ کہا جا رہا ہے۔

 62:   یہاں افسانہ سے کیا مراد ہے؟

افسانہ کا لفظی معانی کہانی ہے۔ کیوں کہ اس بند میں لفظ افسانہ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے لہذا اس سے مراد علامہ اقبال کی نظم شکوہ ہے۔

  63:   اس بند میں ‘پیمانہ’ بطور شعری اصطلاح کیا ہے؟

اس بند میں پیمانہ استعارہ ہے۔

 64:   “اشک بےتاب” کی وضاحت کریں

اشک بے تاب سے مراد وہ آنسو ہوتے ہیں جو فرط جذبات سے فوری نکلتے ہیں اور انسان انھیں قابو نہیں کر سکتا۔

 65:   پیمانہ اشک بے تاب سے کیسے لبریز ہے؟

لفظ “پیمانہ” استعارہ ہے۔ اس سے مراد علامہ اقبال کی آنکھیں ہیں جو مسلمانوں کی موجودہ حالت سے اشک بار ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ علامہ اقبال کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں۔

  66:   کس کا نعرہ آسماں گیر ہوا؟

نظم شکوہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ آسماں گیر ہوئی یعنی شکوہ قبول ہوا ہے۔

 67:   نعرہ مستانہ کے آسماں گیر ہونے سے کیا مراد ہے؟

یہاں نعرہ مستانہ سے مراد علامہ اقبال کی نظم “شکوہ” ہے۔ اور ا س کے آسماں گیر ہونے سے مراد “شکوہ” کا قبول ہونا ہے۔

 68:   نعرہ مستانہ سے کیا مراد ہے؟

نعرہ مستانہ استعارہ ہے اور اس سے مراد علامہ اقبال کی نظم شکوہ ہے۔

 69:   اس بند میں “ترا” کس کو کہا جا رہا ہے؟

اس بند میں ترا علامہ اقبال کو کہا جا رہا ہے۔

 70:   دل دیوانہ کے شوخ زباں ہونے کی وضاحت کریں

دل دیوانہ کے شوخ زباں ہونے سے یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کے لیے ہمدردی اور دکھ کے جذبات اتنے شدید ہیں کہ انجام کی پروا کیے بغیر بے خوفی سے شکوہ کر دیا گیا۔

 71:   شکر، شکوہ کون سی صنعت ہے؟ نیز شعر سے اس صنعت کی مثال دیں

کیوں کہ شکر اور شکوہ متضاد الفاظ ہیں اور شاعری میں متضاد الفاظ استعمال کرنا صنعت تضاد کہلاتا ہے۔ لہذا شکر، شکوہ صنعت تضاد ہے۔

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی

 72:   صنعت تعلی کی تعریف کریں

شاعری میں شاعر کا اپنی یا اپنے کلام کی تعریف کرنا صنعت تعلی کہلاتا ہے۔

 73:   پانچویں مصرعے کا مفہوم بیان کریں

یہاں ‘شکر،شکوے’ کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے اور علامہ اقبال کی نظم شکوہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اچھےانداز میں شکر اور شکوہ سے اپنی بات اللہ تعالی کی بارگاہ میں پہنچائی ہے۔

 74:اقبال کا شکوہ کیسا تھا؟

اقبال کا شکوہ شکر اور شکوے کی صفات کا حامل ایک حسن ادا تھا۔

 75:   بندوں کے خدا سے ہم سخن ہونے کی وضاحت کریں

اس سے مراد یہ ہے کہ علامہ اقبال نے تمام مسلمانوں کے درد اور مسائل کی ترجمانی کر کے گویا ان کے مسائل رب تعالی کے سامنے رکھ دیے ہیں اور انھیں خدا سے ہم سخن کر دیا ہے۔

دوسرا معانی یہ لیا جا سکتا ہے کہ پہلے انسان اپنے مسائل رب تعالی کے سامنے نہیں رکھتا تھا نہ  ہی اسے جرات ہوتی تھی کہ رب تعالی سے شکایت لگا سکے۔ اقبال نے یہ کام کر کے انسانوں کو راہ دکھا دی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے مسائل بیان کر سکتے ہیں۔

 76:   آخری شعر میں موجود صنعت کی تعریف کریں

آخرمیں شعر میں لفظ شکر اور شکوہ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ متضاد الفاظ ہیں۔ لہذا یہاں استعمال ہونے والی صنعت، صنعت تضاد ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!