جواب شکوہ بند 8 SLO

بند 8 (ص190)

صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟

میرے قرآں کو سینوں سے لگایا کس نے؟

تھے تو وہ آبا تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

 

111:  سوال کر کے جواب دینا کون سی صنعت ہے؟

سوال کر کے جواب دینا صنعت سوال جواب ہے۔

112:  صفحہ دہر کس کو کہا جا رہا ہے؟

صفحہ دہر اس دنیا کو کہا جا رہا ہے۔

113:  باطل کو مٹانے سے کیا مراد ہے؟ / صفحہ دہر سے باطل کے مٹنے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد کفریہ قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ یعنی جہاں جہاں ظلم و ستم ہے اس کا مقابلہ کر کے عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنا اور کفریہ رسوم و رواج سے دنیا کو آزاد کروانا۔

114:  نوع انساں کون سی غلامی سے، کس طرح آزاد ہوئی؟

مسلمانوں کی آمد سے پہلے لوگ طرح طرح کی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے۔ مذہبی رہنما اپنی مرضی سے دین میں تبدیلی کر کے لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، وہ ذات پات کی اونچ نیچ میں پھنسے ہوئے تھے۔ ا سکے علاوہ کئی جگہوں پر ظالم حکومتیں تھیں، یہاں تک کے سپین کی فتح کی بڑی وجہ اہلِ سپین کا مسلمانوں کو دعوت دینا کہ ہمیں ان بادشاہوں کے چنگل سے آزاد کرواؤ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اور مسلمان جہاں بھی گئے، برابری، انصاف اور رحمدلی کا وہ مظاہرہ کیا کہ لوگ خود بخود مسلمان ہوتے گئے۔ یہاں  ہر قسم کی غلامیوں سے آزادی کا ذکر ہے۔

115:  نوع انساں کو غلامی سے کیسے چھڑایا گیا؟

انسانوں کو باطل قوتوں اور ہر قسم کے ظلم  و ستم سے چھڑانے سے مراد نوع انسانی کو غلامی سے چھڑانا مراد ہے۔

116:  کعبہ کو جبینوں سے کیسے بسایا گیا؟ / کعبے کو جبینوں سے بسانے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد اللہ تعالی کی اطاعت کرنا اور کعبہ کو مشرکین کے چنگل اور رسوم و عادات سے آزاد کروانا ہے۔

117:  قرآں کو سینوں سے لگانے سے کیا مراد ہے؟

قرآن کو سینوں سے لگانے سے مراد قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کو دنیا میں پھیلانا ہے۔

118:  “ہاتھ پر ہاتھ” میں صنعت تکرار لفظی استعمال ہوئی ہے۔ وضاحت کریں

صنعت تکرار لفظی سے مراد ایک لفظ کا کسی مصرعے یا شعر میں دو بار آنا ہے۔ لہذا ہاتھ پر ہاتھ میں لفظ “ہاتھ” کا تکرار ہو رہا ہے جو کہ صنعت تکرار لفظی ہے۔

119:  ہاتھ پر ہاتھ رکھنا، تکرار لفظی کے علاوہ کیا ہے؟

ہاتھ پر ہاتھ رکھنا تکرار لفظی کے علاوہ محاورہ ہے۔

120:  کون منتظر فردا ہے؟

منتظر فردا سے مراد اچھے کل کی امید پر بیٹھے رہنا ہے۔ یہاں مسلمان قوم کو منتظر فردا کہا جا رہا ہے کہ خود کوئی کام نہیں کرتے اور اچھے کل کی امید پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

121:  منتظر فردا ہونے سے کیا مراد ہے؟

اس سے مراد آنے والے کل پر تکیہ کر کے بیٹھنا ہے کہ آنے والا کل اچھا ہو گا۔

122:  آبا نے کیا کِیاتھا؟

آبا و اجداد نے آنے والے کل کی امید پر بیٹھنے کے بجائے خود محنت کی تھی اور اپنے عمل سے اپنا آنے والا کل بنایا تھا۔ یعنی وہ سست اور کاہل ہونے کے بجائے باعمل لوگ تھے۔

123   :آباء  میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟

ہمار ے آبا ہر کام خود کرتے تھے نہ کہ کسی کے انتظار میں رہتے تھے جب کہ ہم سستی اور کاہلی کا شکار ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے حصے کا کام کر جائے یا ہم آنے والے اچھے مستقبل کی امید پر بیٹھے وقت گزار دیتے ہیں بجائے اس کے کہ خود سے کام کر کے اپنا مستقبل بہتر بنایا جائے۔

2 thoughts on “جواب شکوہ بند 8 SLO”

  1. Pingback: جواب شکوہ بند 7 SLO

  2. Pingback: جواب شکوہ بند 9

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!