نصیحت اخلاقی

نصیحت اخلاقی

بیٹے کو لوگ کہتے ہیں، آنکھوں کا نور ہے                      ہے زندگی کا لطف، تو دل کا سرور ہے

گھر میں اسی کے دم سے ہے ہر سمت روشنی                   نازاں ہے اس پہ باپ، تو ماں کو غرور ہے

خوش قسمتی کی ا س کو نشانی سمجھتے ہیں                         کہتے ہیں، یہ خدا کے کرم کا ظہور ہے

1:      لوگوں کی بیٹے کے بارے میں کیا رائے ہے؟

لوگ بیٹے کا آنکھوں  کا نور کہتے ہیں۔ ان کے مطابق اسی سے زندگی کا لطف اور سرور ہے اور گھر میں یہی  رونق کا باعث ہے۔ بیٹے کی وجہ سے ماں باپ کو غرور اور ناز ہے اور اسے خوش قسمتی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

2:      گھر میں کس کے دم سے روشنی ہے؟

www.universalurdu.com

3:      گھر میں بیٹے کے دم سے روشنی  ہونے سے کیا مراد ہے؟

گھر میں بیٹے کے دم سے روشنی ہے اور اس سے مراد یہ ہے ہر کوئی   بیٹے کی وجہ سے خوش ہے، اور اپنا مستقبل اور نسل محفوظ نظر آتی ہے۔

4:      اس بند میں  صنعت تضاد کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟ نیز شعر سے مثال دیں

            اس بند میں الفاظ “ماں،باپ”  کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

؎           ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا   یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی

5:      اس بند کا مرکزی خیال/مفہوم تحریر کریں

            جواب1

اکبر بھی اس خیال سے کرتا ہے اتفاق              اس کا بھی ہے یہ قول، کہ ایسا  ضرور ہے

البتہ شرط یہ ہے، کہ بیٹا ہے ہونہار                 مائل ہے نیکیوں سے، برائی سے دور ہے

سنتا ہے دل لگا کے بزرگوں کی پند کو                وقتِ کلام لب پہ جناب و حضور ہے

6:      اکبر بیٹے کے ہونہار ہونے کی کیا شرائط بتا رہے ہیں؟

اکبر کے مطابق ہونہار بیٹے کے لیے شرط ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی نصیحت کو غور سے سنتا ہو، اس کا اندازِ گفت گو شائستہ او ر اچھا ہو نہ کہ گالم گلوچ بھرا۔ ا س کی طبیعت میں نیکیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت ہو۔

7:      دوسرے شعر میں موجود صنعت کی وضاحت کریں

دوسرے  شعر میں “نیکیوں ،برائیوں” کے الفاظ آپس میں متضاد ہیں اس لیے یہاں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔

 

 

 

8:      آخری مصرعے کی وضاحت کریں؟

وقت کلام لب  پہ جناب و حضور سے مراد یہ ہے کہ بیٹا جب بھی کسی سے گفت گو کرے تو اسے معلوم ہو کہ وہ کس سے مخاطب ہے اور اسے کس انداز میں گفت گو کرنا ہے۔ اسے اختلاف کرنے کا سلیقہ بھی معلوم ہو اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ گفتگو کے دوران گالم گلوچ سے کام نہیں لینا۔ گویا وہ اخلاقِ حسنہ کا نمونہ ہو۔

 

                    برتاؤ  اس کا صدق و محبت سے ہے بھرا             اس میں نہ ہے فریب نہ ہے مکر و زور ہے

                    افکارِ والدین میں ہے دل سے وہ شریک            ہمدرد ہے، معین ہے، اہلِ شعور ہے

                    راضی ہے اس پہ باپ کی جو کچھ ہو  مصلحت           صابر ہے با ادب ہے عقیل و غیور ہے

 

9:      بیٹے کا برتاؤ کیسا ہونا چاہئے؟

10:     بیٹے میں کیا نہیں ہونا چاہیے؟

بیٹے کا برتاؤ صدق و محبت سے بھرا ہو، اس میں کسی کے لیے نفرت، دھوکہ بازی یا انتقام نہ ہو۔ نہ ہی وہ کسی سے جھوٹ بولے نہ منافقت سے کام لے، نہ ہی کسی دنیاوی فائدے کی خاطر جھوٹ بولے بل کہ ہر حال میں اس کا کلام حق اور سچ سے بھرا ہو۔

11:    بیٹا کیسے افکارِ والدین میں شریک ہو سکتا ہے؟

بیٹا والدیں کی اطاعت کرے، ان سے ہمیشہ نرمی سے پیش آئے، اسے ان کی کوئی بات بری بھی لگے تو صبر کا دامن نہ چھوڑے۔  والدین جیسا اس کو دیکھنا چاہتے ہوں  ویسا بننے کی کوشش کرے اور ساتھ میں ان کی ذلت کا باعث بننے کے بجائے ایسا کردار اپنائے کہ والدین کا سر فخر سے بلند ہو جائے۔

www.universalurdu.com

12:     بیٹے کے ہمدرد، معین اور اہلِ شعور ہونے سے کیا مراد ہے؟

یہاں ہمدرد ہونے سے مراد ہر کسی کے دکھ میں شریک ہونے والا، جہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہو، وہاں مدد کرنے والا ہو۔ معین سے مراد اخلاق حسنہ کا پابندہو نہ کہ وقتی طور پر اچھا ہو، پھر سے واپس برائیوں کی طرف پلٹ جائے۔ دوسرے معنوں میں اس کی پوری زندگی مستقل اصولوں کی پابند ہو، کبھی اچھا کبھی برا کی حالت نہ ہو۔گویا مستقل مزاجی سے اخلاقِ حسنہ کا پابندہو۔ اہلِ شعور سے مراد یہ ہے کہ اس کو نہ صرف نیکی و برائی کی تمیز اور سلیقہ ہو بل کہ اس کی زندگی میں اسی چیز کا عکس نظر آئے۔

13:     بیٹے کے باپ کی مصلحت پر راضی ہونے سے کیا مراد ہے؟

            جواب 11

 

 

14:     آخری مصرعے کی وضاحت کریں

آخری مصرعے میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ  بیٹے کو صبر و شکر کا حامل ہونا چاہیے۔ اسے اگر کوئی بھی مصیبت، دکھ یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو واویلا نہ مچائے اور نہ ہی شکوے اور انتقام پر اتر آئے بل کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے برے رویے، اخلاق اور ان کی مفاد پرستی کے باوجود ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ بیٹا ایسا ہونا چاہیے کہ شعور کے ساتھ ساتھ غیرت مند بھی ہو۔ ہر ایک کی عزت کو اپنی عزت سمجھے۔ وہ لوگوں کی قدر کرنے اور عزتوں کی حفاظت کرنے والا ہو۔

 

                    رکھتا ہے   خاندان کی  وہ عزت کا خیال               نیکوں کا دوست صحبت بد سے نفور ہے

                    کسبِ کمال کی ہے شب و روز اس کو دھن           علم و ہنر کے شوق کا دل میں وفور ہے

                    لیکن جو ان صفات کا مطلق نہیں  پتا                 اور پھر بھی ہے خوشی تو خوشی کا قصور ہے

15:     پہلے شعر کی وضاحت کریں

پہلے شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ اچھا بیٹا وہ ہے جو اپنے خاندان کی عزت کا خیال رکھتا ہے، وہ ایسا کام ہرگز نہیں کرتا جس سے اس کے والدین یا خاندان کے لوگوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کی فطرت  اخلاق اور حیا والی ہستی ہے۔ وہ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے اور اسی قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے جب کہ برائی سے دور بھاگتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ برائی کے کاموں اور برے لوگوں سے دور رہے۔

16:     بیٹے کو کس چیز کی دھن ہے؟

بیٹے کو رزقِ حلال کی دھن ہے۔ وہ دولت جمع کرنے کے لیے حرام ذرائع استعمال نہیں کرتا  نہ ہی وہ ایسے کام کرتا ہے جن سے اسلام نے منع کیا ہو۔ وہ صبر و شکر سے کام لیتا ہے اور قلیل مگر حلال پر گزارا کر لیتا ہے۔

www.universalurdu.com

17:     علم و ہنر کے بارے میں بیٹے کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

بیٹے میں علم و ہنر کا شوق ہوتا ہے۔ وہ دلجمعی سے علم حاصل کرتا ہے۔ چاہے دینی علم ہو یا دنیاوی، وہ اپنا اصل مقصد نہیں بھولتا اور نہ ہی اپنے علم کو، دوسروں کو نیچا دکھانےکے لیے یا کسی کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال  کرتا ہے۔ اس کا علم کا شوق اور مقصد ہمیشہ مثبت ہوتا ہے۔

18:     خوشی کا قصور سے شاعر کی مراد لے رہے ہیں؟

اس سے مراد یہ ہےکہ اگر کسی بیٹے میں اوپر بیان کردہ خوبیاں نہیں  ہیں،اس کے باوجود وہ اپنے اعما ل اور زندگی سے بے فکر ہے اور نہ ہی اسے بدلنے کی کوشش کرتاہے۔  یوں اس کے  خوش ہونے پر اس کی خوشی کا قصور ہے کیوں کہ اس کا ضمیر مر چکا ہے۔ لہٰذا اسے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 

 

19:     آخری مصرعے میں صنعت تکرار کس طرح استعمال ہو رہی ہے؟

آخری مصرعے میں لفظ “خوشی” کو دہرایا گیا ہے۔ کسی شعر میں ایک لفظ کا دہرایا جانا صنعت تکرار کہلاتا ہے۔ اس لیے یہاں صنعت تکرار ‘خوشی’ کی صورت میں استعمال ہو رہی ہے۔

20:     پہلے شعر میں “نیکوں، بد” کی صورت میں صنعت تضاد استعمال ہو رہی ہے۔ صنعت تفریق کی تعریف کریں اور مثال دیں

            شعر میں دو ایک جیسی چیزوں کا ذکر کر کے ان میں فرق بیان کرنا صنعت تفریق کہلاتی ہے۔

؎           الفاطظو معانی میں تفاوت نہیں لیکن                    ملا کی اذاں اور ہے، مجاہد کی اذاں اور

21:     نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں

اس نظم میں اکبر الہ آبادی یبٹے کی خصوصیات بیان کرتے ہو ئےکہتے ہیں کہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ بیٹا والدین کا مددگار، ان کی آنکھوں کا نور اور فخر کا باعث ہے۔ اکبر کچھ شرائط کے ساتھ اس بات کو درست قرار دیتےہیں کہ اگر بیٹا والدین کا فرمانبردار، ان کی عزت کا خیال کرنے والا، ہونہار، لائق اور قابل ہے تو یہ بات درست ہے۔ اسے حلال و حرام کا علم ہو، لوگوں سے گفتگو کا سلیقہ ہو، نیکی پسند کرتا ہو اور برائی سے دور بھاگتا ہو۔  اگر کسی میں یہ خصوصیات نہیں اور وہ خوش ہے تو اس کی خوشی اور ضمیر کا قصور ہے۔

www.universalurdu.com

22:     کیا ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو بیٹوں کو ملے ہوئے ہیں؟ اپنی رائے دیں

            طلبا و طالبات اپنی ذاتی رائے تحریر کریں۔

            شاعر کا تعارف:

اصل نام  سید اکبر حسین رضوی تھا جب کہ تخلص اکبرؔ تھا۔ آپ قدیم رنگ و اسلوب کے شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ جدید تہذیب اور انگریزی تہذیب کے دل دادہ لوگوں پر شدید تنقید کی۔ انھوں نے مزاحیہ انداز  میں سر سید احمد خان کی تحریک کے خلاف بھی تحریر کیا اور انگریزوں کے خلاف بھی مزاحمت کی۔ان کی شہرت کی وجہ ظرافت بھرے طنزیہ اشعار ہیں۔ ان کی شاعری میں مِس، سید،  اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص معانی کی حامل اصطلاحات اور علامتیں ہیں۔ اردو ادب کے مشہور رسالے نے انھیں ‘لسان العصر’ یعنی اپنے زمانے کی آواز/زبان کا خطا ب دیا۔آپ کا کلام تین دیوان (دوادین) پر  مشتمل ہے۔

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!